کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 114
’عورت‘ کالم نگاروں کی نظر میں موٴرخہ ۲۳ دسمبر۱۹۹۹ء کے ’نوائے وقت‘ میں معروف کالم نگار عطا ء الحق قاسمی نے تحریر کیا کہ عورتیں دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ ان کی ایک قسم تو ’خاتونِ خانہ‘ کہلاتی ہے جبکہ دوسری ’خاتونِ خانہ خراب‘… عطاء الحق قاسمی نے یہ فکاہی کالم مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کے اس بیان کے پس منظر میں تحریر کیا کہ اگر انہیں دوسرا جنم مل جائے تو وہ مرد کی بجائے عورت کے روپ میں دوبارہ زندہ ہونا چاہیں گے۔ کیونکہ اگلی صدی میں عورتوں کو زیادہ حقوق حاصل ہوں گے اور شاید بچے پیدا کرنے کا فریضہ بھی مردوں کو ادا کرنا پڑے۔ قاسمی صاحب کے کالم میں جن عورتوں کے لئے ’خاتون خانہ خراب‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ وہ راقم الحروف کے خیال میں ’نازن‘ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہیں ۔ ’نازن‘ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان کا ’گھریلو اُمور‘ میں ہرگز دل نہیں لگتا۔ ان کی دلچسپیوں کا محور و مرکز بازار کاماحول ہی ہوتا ہے۔ وہ اپنی عدمِ توجہ کی وجہ سے اپنے گھر کا عملاً ’خانہ خراب‘ ہی کرتی ہیں ۔ گرہستن ہونا ان کے نزدیک ایک ایسا عیب ہے کہ جسے وہ کبھی بھی اپنے نام کے ساتھ لکھنا پسند نہیں کرتیں ۔ موزوں اصطلاح کا تعین ؛ ایک مخمصہ جدید تحریک ِنسواں کی علمبردار ’عورتوں ‘ کے لئے کسی مناسب اصطلاح یا لفظ کی تلاش کا مسئلہ صرف ان کے مخالفین کو ہی درپیش نہیں رہا ہے۔ فیمی نزم کے نظریات کے پرچارک بھی اس اُلجھن کا شکار نظر آتے ہیں ۔ جیساکہ ایک انقلابی Feministلکھتی ہیں : "There is forever in feminist thought a problem of what term to employ when speaking of say "Women". The use of "Women" is problem atic. I know that there will be times when I say "Women" without meaning "all Women" (Judith Evans, Feminist Theory Today, p.11) ”نازن پسندانہ فکر میں ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ آخر جب ’عورت‘ کاذکر کیا جائے تو کون سی اصطلاح استعمال کی جانی چاہیے۔’ویمن‘ کے لفظ کا استعمال تو مسئلہ پیدا کرتا ہے، میں جانتی