کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 113
یعنی ”وہ مرد اور بچے کے درمیان ہیں ، کچھ تو مردوں کی خصوصیات زیادہ رکھتی ہیں ،بہت سی بچگانہ مزاج کی زیادہ حامل ہیں ، جبکہ زیادہ تر درمیانی حالت والیاں ہیں ۔“
اہل مغرب کی اس تشریح کے مطابق تو تمام عورتیں ’نصف مرد‘ کے درجہ پر بھی فائز نہیں ہیں ، کیونکہ ان میں بچگانہ صفات پائی جاتی ہیں ۔
اہل مغرب کی اصطلاح
صرف علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ یا مسلمان مصنّفین نے ہی باغیانہ مزاج رکھنے والی مادر پدر آزاد عورتوں کو نشانہٴ تنقید نہیں بنایا ہے بلکہ یورپ میں اس طرح کی تحریریں سترھویں صدی یا اس سے قبل کے دور میں بھی مل جاتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں ’تحریک ِنازن‘کی اِکا دُکا مبلّغات اس تحریک کے باقاعدہ آغاز سے کہیں پہلے اپنے باغیانہ، اور غیر فطری رویوں کا اظہار کر چکی تھیں ۔ ۱۶۲۰ء میں Anon نے The man۔womanکے عنوان سے رسالہ تحریر کیا جس میں ان عورتوں کی شدید مذمت کی جو مردوں کی طرح کا لباس پہنتی ہیں یا اُن جیسے کام کرتی ہیں ۔ ۱۹۴۷ء میں فرڈیننڈ لنڈبرگ نے Modern Woman; the lost sex (جدید عورت: صنف ِگم گشتہ) کے نام سے تحریک ِنازَن کے خلاف بہت موٴثر کتاب لکھی۔اس کتاب کے پہلے باب کا عنوان نازَن کے خلاف کس قدر نفرت کے جذبات لئے ہوئے ہے۔ ملاحظہ کیجئے : Chimaera; or Modern Woman
یعنی ”چڑیل (ڈائن) یا جدید عورت“
Websterکی ڈکشنری کے مطابق Chimaeraیونانی اَصنام پرستی Mythology میں ایک چڑیل عورت کو کہتے ہیں جو منہ سے آگ کے شعلے نکالتی تھی، جس کا سر شیر کا تھا، جسم بکری کا اور دُم سانپ کی تھی۔ یہ اصطلاح ایک مغربی مصنف نے جدید عورتوں کے لئے استعمال کی ہے۔’نازَن‘ تو اس کے مقابلے میں بے حد کم درجے کی اصطلاح معلوم ہوتی ہے۔ مغربی نازَن کے افکار اور اعمال کو پیش نظر رکھا جائے تو واقعی وہ Chimaera ہی کی نسل لگتی ہیں ۔ اِن کی زبانیں ہر وقت مردوں کے خلاف اَنگارے برساتی ہیں ، ان کی سوچ میں ربط ہے نہ تعلق، ان کی باتوں کا سر پیر کوئی نہیں ہے…!!