کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 112
’عورت‘ انگریزی زبان میں
اکیسویں صدی کی ابتدا میں جبکہ یورپ و امریکہ میں ’تحریک نازَن‘ کا بہت چرچا ہے، اب بھی اس تحریک کی اصل روح رواں ’نازَنوں کی متحرک اقلیت‘ ہے۔ مغرب کی عورتوں کی اچھی خاصی تعداد تحریک ِنازن کی انتہا پسندی کو اب بھی پسند نہیں کرتی۔ اس مضمون میں تحریک ِنازن کے آغاز، ارتقا اور تازہ ترین صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینا ممکن نہیں ہے، اس کے لئے الگ سے ایک مبسوط مقالہ کی ضروت ہے۔ البتہ بعض ضروری اشارات اور حوالہ جات ضرور دیے گئے ہیں ۔مندرجہ بالا سطور میں عربی، فارسی اور بالخصوص اُردو زبان میں ’عورت‘ کے لفظ کے معنی اور مفہوم کے حوالے سے ’نازَن‘ کے تصور کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مناسب ہوگا اگر انگریزی زبان وادب کے حوالے سے اس مضمون کو مزید واضح کیا جائے۔
انگریزی زبان میں ’عورت‘ کے لئے کوئی بالکل آزاد اصطلاح وضع نہیں کی گئی۔ عیسائیت میں آدم اور حوا کی تخلیق کے حولے سے یہ بات ملتی ہے کہ’خدا نے مر د کو بالکل اپنی شکل Image پر تخلیق کیا اور عورت کو مرد کے ’امیج‘ پر پیدا کیا۔‘ عیسائی لٹریچر میں آدم کے جنت سے نکالے جانے کا تمام تر ذمہ دار حوا کو قرار دیا گیا ہے۔ حوا کے اس ’قصور‘ کی بنا پر مسیحی یورپ میں صدیوں تک عورت گناہ کی پوٹلی، اور گھٹیا مخلوق تصور کی جاتی رہی ہے۔ مسیحی زبان و ادب میں عورت کوئی آزاد عقلی یا سماجی وجود کی حامل ہستی نہیں ہے، وہ بس مرد کا ایک عکس ہی ہے۔ اسی لئے عورت کے لئے انگریزی زبان میں Woman کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کا لفظی مطلب ہے ’آدھا مرد‘ ۔ اسی طرحShe بنیادی طور پر He کا ضمیمہ ہے۔ عورت کے لئے دوسرا لفظ Femaleہے، یہ بھی دراصل Maleکے نصف کا مطلب ظاہر کرتا ہے۔
۱۶۷۳ء میں معروف پادری رچرڈ باکسٹر نےA Christion Dictionary میں عورتوں کے بارے میں یوں اظہارِ خیال کیا ہے :
"They are betwixt a man and child: Some few have more of the man, and many have more the child; but most are but in the middle state"