کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 111
اور مبلغ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مغربی تہذیب کی دل دادہ عورتوں کو ’نازن‘ کا نام دیا ہے۔ افرنگ زدہ عورتوں کے لئے اس سے زیادہ جامع، معنی خیز اور مفہوم کو صحیح ادا کرنے والا کوئی اور لفظ راقم کی نگاہ سے نہیں گزرا۔ حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی اس اصطلاح نے راقم الحروف کو ’تجھے کس نام سے پکاروں ‘ والی فکر وپریشانی سے بھی بہت حد تک نجات دلا دی۔ ’نازَن‘ کی اصطلاح ’بے عورت‘ یا ’ناعورت‘ جیسے الفاظ سے زیادہ موزوں اور بلیغ ہے، کیونکہ یہ اصطلاح کسی معمولی شاعر یا اَدیب کی وضع کردہ نہیں ہے، بلکہ یہ حکیم ُالامت اور شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تخلیق کردہ ہے۔ ’تحریک ِآزادیٴ نسواں ‘ ٭ یورپ میں طبقہ اُناث اور ان کے بہی خواہوں کی طرف سے آزادی اور حقوق کے نام سے جو تحریک ۱۸۰۰ء کے لگ بھگ شروع کی گئی تھی، اسے تحریک ِآزادیٴ نسواں کا نام دینا بھی درست نہیں ہے۔ یہ تحریک قابل احترام، معتدل مزاج، تعلیم یافتہ، اعلیٰ خاندانوں کی بیگمات نے برپا نہیں کی تھی، وہ تو اس سے الگ تھلگ رہی تھیں ۔ یہ تحریک میری وولسٹن کرافٹ Mary Wolston Craft جیسی اعصابی و نفسیاتی امراض میں مبتلا، جنونی اور انتہا پسند عورتوں نے شروع کی تھی جو مردوں کے مقابلے میں احساسِ کمتری کا شکار تھیں اور جنہیں مردوں کی ہر میدان میں برابری کا خبط اور مالیخولیا لاحق تھا۔اس لئے اس تحریک کو تحریک ِنسواں کی بجائے اگر’تحریک ِنازَن‘ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ مغرب میں اس تحریک ِنازن کی شروع میں اَچھی خاصی مذمت کی جاتی رہی، اسے معاشرتی توازن کے لئے ’خطرناک خیالات پر مبنی ‘تحریک کا نام دیا گیا لیکن اس تحریک ِنازَن کو زیادہ پذیرائی اس وقت ملی جب جان سٹورٹ مل جیسے آزادی پسند دانشوروں نے اس کی پرزور حمایت کی۔ اس مضمون کے آغاز اور درمیان میں راقم الحروف نے یہ’ تحریک ِنسواں ‘ کی ترکیب محض روایتی انداز میں استعمال کی ہے۔ یہ جہاں بھی استعمال ہوئی ہے اس سے مراد تحریک ِنازن ہی ہے۔ تحریک ِنازن کی ترکیب کے استعمال سے چند دیگر تراکیب مثلاً ’تحریک ِآوارگی ٴنسواں ‘ یا ’تحریک ِبربادیٴ نسواں ‘ کے استعمال کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔