کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 110
عورتوں کے لئے جبکہ ترکی زبان میں ’خانم‘ استعمال ہوتا ہے۔
یہ اَمر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے مخصوص ثقافتی پس منظر اور غایت درجہ شرم و حیا کی پاسداری کی بنا پر یہاں کے ادب میں فارسی اور عربی کے معروف الفاظ کونہیں اَپنایا گیا، بلکہ اس کے لئے اُردو میں ’عورت‘ کے لفظ کو نئے معنی پہنا کر اسے عام طور پر استعمال کیا گیا ۔ قرآن مجید میں ایک جگہ عورٰت النساء کے الفاظ بھی ملتے ہیں ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ النساء کے ساتھ عورت بطور ِاسم صفت کے استعمال کی گئی ہے۔
ہندوستانی مسلم ادب میں عورت کی تمام خوبیوں میں شرم و حیا اور ستر کے اُمور کو اس کی صفات کے ذکر میں اوّلین درجہ عطا کیا گیا۔ ’عورت‘ کو مزید تقدس یا عفت کا لبادہ اوڑھانے کے لئے ’مستورات‘ کالفظ بھی ایجاد کیا گیا جس کا مطلب تقریباً وہی ہے، یعنی وہ عورتیں جو عام نگاہوں سے چھپی رہتی ہیں ، اس کا اُلٹ ہے ’مکشوفات‘ یعنی وہ عورتیں جو کھلی ہوئی یا بے پردہ ہیں ۔
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی اصطلاح
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مغرب سے اُٹھنے والی تحریک ِنسواں کی تباہ کاریوں کا یورپ میں مشاہدہ کرنے کے بعد مسلمان خواتین کو اس عظیم فتنہ سے بچنے کے لئے آج سے ۸۰ سال پہلے خبردار کر دیا تھا۔ انہوں نے جدید مغربی تعلیم کو مسلمان عورتوں کے لئے مہلک قرار دیا۔ عورتوں کے حقوق کے نام پر برپا کی جانے والی تحریک کے اندر ’عورت دشمنی‘ کے عناصر کو ان کی حکیمانہ بصیرت نے بہت جلد بھانپ لیا تھا۔ اسی لئے اُنہوں نے فرمایا:
جس علم کی تاثیر سے زَن ہوتی ہے نازَن
کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ ہنر موت
اس شعر میں انہوں نے حد درجہ بلیغ طریقے سے سامراجی نظامِ تعلیم کے ذریعے پھیلائے جانے والے علم کو عورتوں کے لئے اس قدر ضرر رساں محسوس کیا کہ اس کی تحصیل سے ’زَن‘ اپنا تشخص کھو کر ’نازَن‘ بن جاتی ہے۔ گویا عورت، عورت نہیں رہتی۔ ایسا علم جو عورت کو عورت ہی نہ رہنے دے، وہ اس کے لئے موت ہے ۔وہ محض ’علم‘ نہیں بلکہ ’علم نافع‘ کے داعی