کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 109
تحریک ِنسواں کی علمبردار خواتین کو ’عورت‘ کہنا لفظ ِعورت کی توہین، بلکہ معنوی تحریف ہے۔ عورت کا لغوی مطلب ’چھپی ہوئی‘ مجسم حیا ہے۔ مغربی عورت نے پردہ اور حجاب سے بہت پہلے ’آزادی‘ حاصل کر لی تھی، مذکورہ تحریک کے زیر اثر شرم و حیا کا جوا بھی اُتار پھینکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی عورتوں کے لئے کون سا لفظ یا اصطلاح استعمال کی جائے۔ یہ ذمہ داری تو دراصل ان مغرب زدہ بیگمات کی تھی کہ وہ نسوانی تشخص سے جان چھڑانے کے بعد اپنے لئے نیا نام ایجاد کریں ۔ ویسے تو ان کا ذہن مختلف جدت طرازیوں اور روایتی اصلاحات کی بجائے نت نئی جدت پسندیوں کی تحقیق کرتا رہتا ہے، لیکن لفظ ’عورت‘ کے متعلق ان کی تخلیقی صلاحیت ابھی تک سامنے نہیں آئی، وہ نجانے ’عورت‘ جیسی ’شرمناک‘ اور دَقیانوسی اصطلاح اپنے لئے ابھی تک کیوں گوارا کئے ہوئے ہیں ؟ وہ ’محجوب و مستور‘ ہونے کو اپنے لئے توہین آمیز تصور کرتی ہیں ۔ انہیں چاہئے کہ وہ ’عورت‘ کے لفظ کو استحصالی معاشرے کی اصطلاح سمجھتے ہوئے کوئی نئی اصطلاح وضع کریں ۔ لگتا ہے اس معاملے میں وہ خود خاصی روایت پسند واقع ہوئی ہیں !! ’عورت‘ عربی، اردو اور فارسی میں مغرب کی مادر پدر آزاد خواتین اور ان کی اَندھی مقلد پاکستانی بیگمات کے لئے ’عورت‘ کا لفظ استعمال کرنے میں راقم الحروف کو ہمیشہ تامل رہا ہے۔ کیونکہ عورت کا جو مفہوم و مطلب اپنے وسیع تر علمی اور ثقافتی دائرے میں اس کے ذہن میں رہا ہے، یہ طبقہ اُناث اس کی عین ضد ہے۔ یہ اُلجھن محض لفظ ’عورت‘ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عربی، فارسی، ترکی اور اردو زبانوں میں طبقہ اُناث کے لئے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، وہ سب اپنے لغوی اور اصطلاحی مطالب کے اعتبار سے ’جدید عورتوں ‘ کے لئے مناسب نہیں ہیں ۔ عربی زبان میں عورت کے لئے النساء اور المرأة کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ قرآن مجید نے النسائ کو بکثرت استعمال کیا۔ ’نسوانیت‘ کا مادّہ بھی النساء سے نکلا ہے۔ فارسی میں ’زَن‘ اور ’خاتون‘ کے الفاظ ہیں ۔ زَن عام عورتوں کے لئے جبکہ خاتون خاص