کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 108
مروّت و شرافت، ایثار و اخلاص کی رمزیت و ایمائیت کا جو ایک جہانِ حقیقی آباد تھا؛ افسوس! تحریک ِنسواں کے سیلاب نے اسے غارت و تباہ کر دیا ہے۔ اس اعتبار سے گذشتہ تین ہزار برس کے طویل سفر میں دنیا کے مذہبی اور اَدبی لٹریچر اور فنونِ لطیفہ نے عورت کے متعلق علوم وفنون کا جو عظیم محل تعمیر کیا تھا وہ زمین بوس ہوتا دکھائی دیتا ہے اور اس ضمن میں انسانی فکر نے جواہرپاروں کے جو پہاڑ جمع کئے تھے، ان کی حیثیت اب سنگریزوں یا پتھروں کی چٹانوں سے زیادہ نہیں رہی۔ انسانیت نے خدائی تعلیمات اور اپنی عقل کی روشنی میں جو انسانوں کے مفاد میں سماجی اور اخلاقی قدریں تشکیل دیں جو فی الواقع انسانی اجتماعی حکمت کا شاہکار ہیں ، وہ اب محض اِضافی اور غیر متعلق ہو کر رہ گئی ہیں ، کیونکہ جدید تحریک ِنسواں نے ان سب کی مذمت کی بنیاد پر ہی اپنی عمارت کھڑی کی ہے۔ مغرب کے بعض راست فکر دانشور جو تحریک ِنسواں کے انسانی معاشرے پر خطرناک نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، انہوں نے بار بار خبردار کیا کہ ’عورت کو عورت ہی رہنے دو‘ لیکن تحریک ِنسواں کے علمبردار خواتین و حضرات نے نسوانیت کی پرانی قدروں کو مردوں کے ظلم اور استحصال کے لئے ایک ہتھیار قرار دے کر اس طرح کے وعظ و نصیحت کو عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا اور عورتوں کی متواتر ذہن سازی کی کہ اگر وہ مردوں کے ظلم سے نجات چاہتی ہیں تو اس کی واحد صورت یہی ہے کہ وہ ’مرد‘ ہی بن جائیں یا کم از کم اس کی کاربن کاپی؛ نتیجہ معلوم ! عورت’مرد‘ تو نہ بن سکی البتہ ’عورت‘ بھی نہ رہی…!! مغربی عورت اپنے فطری مقام و مرتبے سے، اپنی رضا و رغبت یا پھر فریب کاری کے جال میں پھنس کر نیچے گری تو ہزار مجموعہ ہائے خرابی کا نمونہ بن گئی ۔ کسی شاعر نے اپنے ممدوح کی بے شمار خوبیاں دیکھ کر بے اختیار کہا تھا ع اے مجموعہٴ خوبی! بچہ نامت خوانم یعنی ”اے سراسر خوبیوں کے مجموعہ! میں تمہیں کس نام سے پکاروں ؟“ مغربی عورت کے بارے میں معمولی تصرف کے ساتھ بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ع اے مجموعہٴ خرابی! بچہ نامت خوانم