کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 107
تحریک ِنسواں محمد عطاء اللہ صدیقی تحریک’ نا زَ ن ‘ایک ناقدانہ جائزہ جس علم کی تاثیر سے ’زَن‘ ہوتی ہے نازَن کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ ہنر موت مغرب میں برپا کی جانے والی ’تحریک ِآزادیٴ نسواں ‘ نے عورت کو جو مراعات اور آزادیاں بخشی ہیں ، ان کی افادیت کے متعلق خود اہل مغرب کے درمیان بھی اتفاقِ رائے نہیں ہے، البتہ آزادی کے اس دو سو سالہ سفر کے بعد بلاشبہ عورت ایک ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ضرور ہوئی ہے،وہ یہ کہ مغربی عورت اپنے عورت ہونے کے تشخص کو گم کر بیٹھی ہے۔ نسوانیت کا وہ انمول زیور جو فطرت نے عورت کو عطا کیا تھا، وہ برابری اور حقوق کی دھول میں ایسا گم ہوا ہے کہ اب اسے ’چراغِ رُخِ زیبا‘ کا سہارا لے کر بھی ڈھونڈنا چاہیں تو نہیں ڈھونڈ سکیں گے۔ چراغ کی بات ہی الگ ہے، رُخِ زیبا کا وجود ہی باقی نہیں رہا، گھر کی پاکیزہ فضا سے نکل کر بازار، دفتر اور جنسی ہوس ناکی کی منڈیوں میں خوار ہو کرجمال پرور نسوانی چہرہ زمانے کی دھول سے اس قدر اَٹا ہوا ہے کہ حسن و جمال کا پیکر عجب بھبھوکے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ لیکن واے افسوس !اس عظیم المیہ کا احساسِ زیاں جاتا رہا ہے، مغرب کی عورت اپنی مسخ شدہ فطرت کو بحال کرنے کی بجائے اسے مزید بگاڑنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہی ہے۔ اُردو زبان میں جس انسان کے لئے لفظ ’عورت‘ استعمال کیاجاتا ہے، وہ مغرب میں لغوی اور اصطلاحی دونوں اعتبار سے اپنی معنویت و مفہوم کھو چکا ہے۔ ’عورت‘ کا لفظ سنتے یا پڑھتے ہی انسانی ذہن میں ایک حیاتیاتی وجود کی شکل و صورت اور پیکر ِظاہری کے علاوہ اس سے وابستہ شرم و حیا، عفت و عصمت، حسن و جمال، نزاکت و لطافت، اُلفت واُمومت، تقدس و نظافت،