کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 106
رکھ سکے، لیکن جب وہ گھر سے باہر آگئی تو یہ ہوا کہ باپ بھی باہر اور ماں بھی باہر، اور بچے اسکول میں یا نرسری میں ، اور گھر پرتالا پڑ گیا، اب وہ فیملی سسٹم تباہ اور برباد ہوکر رہ گیا۔ عورت کو تو اس لئے بنایا تھاکہ جب وہ گھر میں رہے گی تو گھر کا انتظام بھی کرے گی اور بچے اس کی گود میں تربیت پائیں گے، ماں کی گود بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے۔وہیں سے وہ اخلاق وکردار سیکھتے ہیں ، وہیں سے زندگی گزارنے کے صحیح طریقے سیکھتے ہیں ، لیکن آج مغربی معاشرے میں فیملی سسٹم تباہ ہوکر رہ گیا ہے، بچوں کو ماں اور باپ کی شفقت میسر نہیں ہے، اور جب عورت دوسری جگہ کام کر رہی ہے اور مرد دوسری جگہ کام کررہا ہے، اور دونوں کے درمیان دن بھر میں کوئی رابطہ نہیں ہے، اور دونوں جگہ پر آزاد سوسائٹی کا ماحول ہے بسا اوقات ان دونوں میں آپس کا رشتہ کمزور پڑ جاتا اور ٹوٹنے لگتا ہے اور اس کی جگہ ناجائز رشتے پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں ، اور اس کی وجہ سے طلاق تک نوبت پہنچتی ہے اور گھر برباد ہوجاتا ہے۔
عورت کے بارے میں ’گورباچوف‘ کا نظریہ
اگر یہ باتیں صرف میں کہتا تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ یہ سب باتیں آپ تعصب کی بنا پر کہہ رہے ہیں لیکن اب سے چند سال پہلے سوویت یونین کے آخری صدر ’میخائل گوربا چوف‘ نے ایک کتاب لکھی ہے … پروسٹرائيكا
آج یہ کتاب ساری دنیا میں مشہور ہے اور شائع شدہ شکل میں موجود ہے، اس کتاب میں گوربا چوف نے ’عورتوں کے بارے میں ‘ (Status of Women) کے نام سے ایک باب قائم یا ہے، اس میں اس نے صاف اور واضح لفظوں میں یہ بات لکھی ہے کہ
”ہماری مغرب کی سوسائٹی میں عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا، اور اس کو گھر سے باہر نکالنے کے نتیجے میں بے شک ہم نے کچھ معاشی فوائد حاصل کئے اور پیداوار میں کچھ اضافہ ہوا، اس لئے کہ مرد بھی کام کررہے ہیں اور عورتیں بھی کام کررہی ہیں ، لیکن پیداوار کے زیادہ ہونے کے باوجود اس کا لازمی نتیجہ یہ ہواکہ ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوگیا اور اس فیملی سسٹم کے تباہ ہونے کے نتیجے میں ہمیں جو نقصان اُٹھانے پڑے ہیں ، وہ نقصانات اُن فوائد سے زیادہ ہیں جو پروڈکشن کے اضافے کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہوئے۔ لہٰذا میں اپنے ملک میں ’پروسٹرائیکا‘ کے نام سے ایک تحریک شروع کررہا ہوں ، اس میں میرا ایک بڑا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ عورت جو گھر سے باہر نکل چکی ہے، اس کو واپس گھر میں کیسے لایا جائے؟ اسکے طریقے سوچنے پڑیں گے، ورنہ جس طرح ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے، اسی طرح ہماری پوری قوم تباہ ہوجائے گی۔“