کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 105
اپنے گھر میں اپنے اور اپنے شوہر، اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور اولاد کے لئے خانہ داری کا انتظام کرے تو یہ قید اور ذلت ہے، لیکن وہی عورت اجنبی مردوں کے لئے کھانا پکائے، ان کے کمروں کی صفائی کرے، ہوٹلوں اور جہازوں میں ان کی میزبانی کرے، دوکانوں پر اپنی مسکراہٹوں سے گاہکوں کو متوجہ کرے اور دفاتر میں اپنے افسروں کی ناز برداری کرے تو یہ ’آزادی‘ اور ’اعزاز‘ ہے۔ انا لله وانا اليه راجعون
پھر ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عورت کسب ِمعاش کے آٹھ آٹھ گھنٹے کی یہ سخت اور ذلت آمیز ڈیوٹیاں ادا کرنے کے باوجو داپنے گھر کے کام دھندوں سے اب بھی فارغ نہیں ہوئی۔ گھر کی تمام خدمات آج بھی پہلے کی طرح اسی کے ذمے ہیں ، اور یورپ اور امریکہ میں اکثریت ان عورتوں کی ہے جن کو آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی دینے کے بعد اپنے گھر پہنچ کر کھانا پکانے، برتن دھونے اور گھر کی صفائی کا کام بھی کرنا پڑتا ہے۔
کیا نصف آبادی عضو ِ معطل ہے؟
عورتوں کو گھر سے باہرنکالنے کے لئے آج کل ایک چلتا ہوا استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی نصف آبادی کو عضو ِ معطل بناکر قومی تعمیر و ترقی کے کام میں نہیں ڈال سکے۔ یہ بات اس شان سے کہی جاتی ہے کہ گویا ملک کے تمام مردوں کو کسی نہ کسی کام پر لگا کر مردوں کی حد تک ’مکمل روزگار‘کی منزل حاصل کرلی گئی ہے۔ اب نہ صرف یہ کہ کوئی مرد بے روزگار نہیں رہا بلکہ ہزارہا کام ’مین پاور‘ کے انتظار میں ہیں ۔
حالانکہ یہ بات ایک ایسے ملک میں کہی جارہی ہے جہاں اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل مرد سڑکوں پرجوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں ، جہاں کوئی چپڑاسی یا ڈرائیور کی آسامی نکلتی ہے تو اس کے دسیوں گریجویٹ اپنی درخواستیں پیش کردیتے ہیں اور اگر کوئی کلرک کی جگہ نکلتی ہے تو اس کے لئے دسیوں ماسٹر اور ڈاکٹر تک کی ڈگریاں رکھنے والے اپنی درخواستیں پیش کردیتے ہیں ۔ پہلے مردوں کی ’نصف آبادی‘ ہی کو ملکی تعمیر و ترقی کے کام میں پورے طور پر لگا لیجئے۔ اس کے بعد باقی نصف آبادی کے بارے میں سوچئے کہ وہ عضو ِمعطل ہے یا نہیں ؟
آج فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے!
اللہ تعالیٰ نے عورت کو گھر کی ذمہ دار بنایا تھا، گھر کی منتظمہ بنایا تھا کہ وہ فیملی سسٹم استوار