کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 104
میں عورت کو گھسیٹ کر سڑکوں پر لایا گیا، اسے دفتروں میں کلرکی عطا کی گئی، اسے اجنبی مردوں کی پرائیویٹ سیکرٹری کا ’منصب‘ بخشا گیا، اسے ’اسٹینو ٹائپسٹ‘بننے کا اعزاز دیا گیا۔ اسے تجارت چمکانے کے لئے ’سیلز گرل‘ اور ’ماڈل گرل‘ بننے کا شرف بخشا گیا، اور ا س کے ایک ایک عضو کوبرسر بازار رُسوا کرکے گاہکوں کودعوت دی گئی کہ آوٴ اور ہم سے مال خریدو، یہاں تک کہ وہ عورت جس کے سر پر دین فطرت نے عزت و آبرو کا تاج رکھا تھا اور جس کے گلے میں عفت و عصمت کے ہار ڈالے تھے، تجارتی اداروں کے لئے ایک شو پیس اور مرد کی تھکن دور کرنے کے لئے ایک تفریح کا سامان بن کر رھ گئی!!
آج ہر گھٹیا کام عورت کے سپرد ہے
نام یہ لیا گیا کہ عورت کو ’آزادی‘ دے کر سیاست و حکومت کے ایوان اس کے لئے کھولے جارہے ہیں ، لیکن ذرا جائزہ لے کر تو دیکھئے کہ اس عرصے میں خود مغربی ممالک کی کتنی عورتیں صدر یا وزیراعظم بن گئیں ؟ کتنی خواتین کو جج بنایا گیا؟ کتنی عورتوں کو دوسرے بلند مناصب کا اعزاز نصیب ہوا؟ اَعدادوشمار جمع کئے جائیں تو ایسی عورتوں کا تناسب بمشکل چند فی لاکھ ہوگا۔ ان گنی چنی خواتین کو کچھ مناصب دینے کے نام پر باقی لاکھوں عورتوں کو جس بیدردی کے ساتھ سڑکوں اور بازاروں میں گھسیٹ کر لایا گیاہے، وہ ’آزادیٴ نسواں ‘ کے فراڈ کا المناک ترین پہلو ہے۔ آج یورپ اور امریکہ میں جاکر دیکھئے تو دنیا بھر کے تمام نچلے درجے کے کام عورت کے سپرد ہیں ۔ ریستورانوں میں کوئی مرد ویٹر شاذو نادر ہی کہیں نظر آئے گا، ورنہ یہ خدمات تمام تر عورتیں انجام دے رہی ہیں ۔ ہوٹلوں میں مسافروں کے کمرے صاف کرنے، ان کے بستر کی چادریں بدلنے اور ’روم اٹنڈنٹ‘کی خدمات تمام تر عورتوں کے سپرد ہیں ۔ دوکانوں پر مال بیچنے کے لئے مرد خال خال نظر آئیں گے، یہ کام بھی عورتوں ہی سے لیا جارہا ہے۔ دفاتر کے استقبالیوں پر عام طور پر عورتیں ہی تعینات ہیں ۔ اور بیرے سے لے کر کلرک تک کے تمام ’مناصب‘ زیادہ تر اسی صنف ِنازک کے حصے میں آئے ہیں جسے ’گھر کی قید سے آزادی‘ عطا کی گئی ہے۔
نئی تہذیب کا عجیب فلسفہ
پروپیگنڈے کی قوتوں نے یہ عجیب و غریب فلسفہ ذہنوں پر مسلط کردیا ہے کہ عورت اگر