کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 103
سپرد ہوں ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کو براہ ِ راست خطاب فرماتے ہوئے ان کے واسطے سے ساری مسلمان خواتین سے خطاب فرمایا:
﴿وَقَرْنَ فِىْ بُيُوتِكُنَّ﴾ (الاحزاب:33)یعنی ”تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔“
اس میں صرف اتنی بات نہیں کہ عورت کو ضرورت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جانا چاہئے بلکہ اس آیت میں ایک بنیادی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، وہ یہ کہ ہم نے عورت کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ گھر میں قرار سے رھ کر گھر کے انتظام کو سنبھالے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنے درمیان یہ تقسیم کار فرما رکھی تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر کے باہر کے کام انجام دیتے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا گھرکے اندرکا انتظام سنبھالتیں ۔ چنانچہ گھرمیں جھاڑو دیتیں ، چکی چلا کر آٹا پیستیں ، پانی بھرتیں اور کھانا پکاتیں ۔
عورت کو کس لالچ پر گھرسے باہر نکالا گیا؟
لیکن جس ماحول میں معاشرے کی پاکیزگی کوئی قیمت نہ رکھتی ہو، اور جہاں عفت وعصمت کے بجائے اخلاق باختگی اور حیا سوزی کو منتہاے مقصود سمجھا جاتا ہو، ظاہر ہے کہ وہاں اس تقسیم کار اور پردہ و حیا کو نہ صرف غیر ضروری بلکہ راستے کی رکاوٹ سمجھا جائے گا۔ چنانچہ جب مغرب میں تمام اخلاقی اقدار سے آزادی کی ہوا چلی تو مرد نے عورت کے گھر میں رہنے کو اپنے لئے دوہری مصیبت سمجھا۔ ایک طرف تو اس کی ہوسناک طبیعت عورت کی کوئی ذمہ داری قبول کئے بغیر قدم قدم پراس سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی، اور دوسری طرف وہ اپنی قانونی بیوی کی معاشی کفالت کو بھی ایک بوجہ تصور کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے دونوں مشکلات کا جو عیارانہ حل نکالا، اس کا خوبصورت اور معصوم نام ’تحریک ِ آزادیٴ نسواں ‘ ہے۔ عورت کو یہ پڑھایا گیا کہ تم اب تک گھر کی چاردیواری میں قید رہی ہو، اب آزادی کا دور ہے اور تمہیں اس قید سے باہر آکر مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر کام میں حصہ لینا چاہئے۔ اب تک تمہیں حکومت و سیاست کے ایوانوں سے بھی محروم رکھا گیا ہے، اب تم باہر آکر زندگی کی جدوجہد میں برابر کا حصہ لو تو دنیا بھر کے اعزازات اور اونچے اونچے منصب تمہارا انتظار کررہے ہیں ۔
عورت بے چاری دل فریب نعروں سے متاثر ہوکر گھر سے باہر آگئی اور پروپیگنڈے کے تمام وسائل کے ذریعے شور مچا مچا کر اسے یہ باور کرا دیا گیا کہ اسے صدیوں کی غلامی کے بعد آج آزادی ملی ہے، اور اب اس کے رنج و محن کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ان دل فریب نعروں کی آڑ