کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 100
(7)یورپ اور امریکہ کے تمام ممالک میں تعلیم نسواں کے طریقے عورتوں کی حالت کے لئے مفید اور مناسب نہیں جس کی شہادت وہیں کے اہل علم کے اقوال سے بہم پہنچتی ہے۔ (8)اسلام نے عورت کے بارے میں جو ہدایتیں کی ہیں ، وہ فطری نسوانیت سے پوری طرح مطابق اور موافق ہیں ۔ گویا اسلامی تعلیمات عورت کے جملہ خصائص اور ملکات کو اچھی صورت میں ڈھالنے کے لئے اعلیٰ درجہ کے سانچہ سے مشابہ ہیں ،یعنی اگر ان تعلیمات کے موافق عورت کے خصائص نشوونما پائیں تو مسلمان خاتون بغیر اس کے کہ اپنے طبیعی حدود سے ایک قدم بھی آگے بڑھے بہت اعلیٰ درجہ کی کامل و اکمل عورت بن سکتی ہے۔ (9)مسلمان خاتون میں کمالِ جنس نسوانی کے اعلیٰ واکمل مرکز تک پہنچنے میں صرف اتنی ہی کمی ہے کہ صرف علومِ ضروریہ کے مبادی سے بے خبر ہے اور جب اسے اتنی تعلیم دے دی جائے تو پھر اس میں کوئی نقص باقی نہ رہے گا۔ یہ سب تو مسائل ہیں جن کے ثبوت میں مشاہدات اور واقعات اور تجربے کے علوم کے زبردست اُصول پیش کرکے میں نے استدلال کیا ہے یا موجودہ زمانہ کے سب سے بڑے علماءِ تمدن و عمران کے اقوال سے استشہاد کیا ہے۔ نیز اس بحث میں مَیں نے جہاں تک بن پڑا عملی فلسفہ (پریکٹیکل سائنس) کے اُسلوب کا دھیان رکھاہے۔ گو اس میں سخت مشقت اور دشواری پیش آئی، تاہم میری اس سے دو اعلیٰ درجہ کی غرضیں تھیں جو حسب ِذیل ہیں : ٭ اوّل یہ کہ پردۂ نسواں کے حامیوں کا پہلو قوی کیاجائے تاکہ ان پر پردہ کی رسم کو معترضین کے حملوں سے بچانے میں آخر دم تک ثابت قدمی دکھانا آسان بن جائے اور وہ عملاً اس بات سے واقف ہوجائیں کہ حق انہیں کی جانب ہے اور ان کو یہ بھی معلوم ہوجائے کہ دنیا کی ہرایک حرکت خواہ وہ بظاہر کسی حالت میں نظر آئے لیکن دراصل اس کا رخ ہرایک کاروبارِ زندگی میں فطرتِ انسانی کے اصل مرکز کی طرف ہی ہوگا اور وہ فطرت وہی ہے جس کی ہدایت ہمارا دین حنیف فرماتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ مسلمان میں بری قسم کا اور قابل افسوس تعصب ہرگز نہیں پایا جاتا۔ مگر یہ ضرورت ہے کہ وہ ان نئی بدعتوں کے انبوہ میں فطرتِ سلیمہ کی محافظت کا فرض ادا کر رہے ہیں اور یوں وہ چاہے جس قدر بھی مادّی طریقہ زندگی کے گھڑدوڑ میں اَور