کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 9
عَلِيًّا﴾(مریم:19) ”ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اس کی ذرّیت کو اپنی رحمت سے نوازا، وہ اس طرح کہ اس کا اعلیٰ و اشرف ذکر ِخیر دنیا میں باقی رکھا۔“ جب التجاے خلیل علیہ السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآنِ پاک نازل ہوا تو آپ غارِحرا میں معتکف تھے جو بھوکے پیاسے تمام دنیا کی آلائشوں سے کنارہ کش تھے تو جس طرح اُسوہٴ ابراہیمی علیہ السلام کی یادگارحج فرض کرکے قائم رکھی گئی، اسی طرح اُسوھٴ محمدی کی بھی یادگار ہے جو ماہ رمضان کی صورت میں قائم رکھی گئی جو چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی زندھ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔ آغازِ فرضیت ِصیام اور اس کے وقت کی تحدید روزہ 2 ہجری میں فرض ہوا جو اسلامی فتوحات اور خیرسالی کے آغاز کا زمانہ تھا۔ اسلام سے پہلے بعض اُمتوں پر مسلسل روز ہ کا حکم تھا اور یہود میں شب و روز کا روزہ تھا، صرف افطار کے وقت شام کو کھاتے تھے اور رات کو سو جانے کے بعد پھر کھانا حرام تھا۔آغازِاسلام میں بھی یہی حکم تھا۔بخاری میں ہے کہ: كان أصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم إذا كان الرجل صائما فحضر الافطار فنام قبل أن يفطر لم يأكل ليله ولا يومه حتى يمسي ”یعنی صحابہ ابتداءِ اسلام میں جب روزہ رکھتے اور افطار کا وقت آجاتا اور وھ افطار کرنے سے پہلے سوجاتے تو پھر رات بھر اور دن بھر دوسرے دن کی شام تک کچھ نہ کھاتے۔“ (بخاری: 1915) اسلام نے بعض حالات کو دیکھ کر روزھ کے متعلق آیاتِ تخفیف نازل فرما دیں جن میں روزھ کے وقت کو طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک معین کردیا اور رات کو سو کر اُٹھنے کے بعد کھانے پینے کی اجازت دے دی گئی۔ صرف اجازت ہی نہیں بلکہ اس وقت کھانے پینے کو موجب برکت کہہ کر ترغیب دلائی اور مجامعت کی بھی باسثتناے وقت ِصوم عام اجازت دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إلٰى نِسَاءِ كُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَاكَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوْا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ﴾