کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 85
کے طرزِ عمل کے سراسر خلاف ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان دینی تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنی اولادوں کو دینی علوم سکھائیں ، اس کے بغیر کفر کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ۔
٭ رئیس جامعہ لاہور الاسلامیہ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ نے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے دو اہم امور کی طرف توجہ مبذول کروائی :
(1) اسلام میں دین و دنیا کی تفریق کا تصور غلط ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر دنیا کو اطاعت الٰہی کے اندر رہ کر گزار جائے تو یہی اصل دین ہے اور اگر دنیا اطاعت ِالٰہی کے دائرہ سے نکل جائے تو یہ دنیا ہے۔اس لئے ایک مسلمان دنیا کے تمام امور دین کے دائرہ میں رہتے ہوئے بخوبی انجام دے سکتا ہے۔
(2)اسلام میں ملائیت کا تصور نہیں کہ چند لوگ پیشہ کے طور پر دین کے اس کام کو سنبھال لیں ۔ پاپائیت او رملائیت کا یہ تصور عیسائیت میں پایا جاتا ہے، اسلام ہر شخص کو دین کی بنیادی تعلیمات سیکھنے اور اسے آگے پہچانے کا حکم دیتا ہے: (طلب العلم فريضه على كل مسلم)ہاں اُمت ِمسلمہ میں ایک طبقہ ایسا ضرور ہونا چاہئے جو اسلا م کی جزئیات کا علم حاصل کرنے اور نئے پیش آمدہ مسائل اور چیلنجز کا حل تلاش کرکے اُمت کو بتائے۔ ہر آدمی پر یہ فرض نہیں ہے اور نہ یہ ممکن ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:﴿فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِىْ الدِّيْنِ﴾یعنی تمام شعبوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو دین کی گہری فہم حاصل کرکے اپنے اپنے شعبے کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں ۔
٭ آخر میں پروفیسر ڈاکٹر مزمل احسن شیخ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، قرآن کریم کو تمام علوم کا اصل مرجع و منبع قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان کا بہترین ہتھیار دعا ہے جس سے آج ہم غافل ہیں ۔ اس کے بعد اُنہوں نے علم کی فضیلت بیان کی ۔ طلبا اور مہمانانِ گرامی کا شکریہ ادا کیا اور امت ِ مسلمہ کی کامیابی کے لئے دُعا فرمائی۔