کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 81
ہو اور گھوڑے پر سوارہو، اسلام کا تصورِ جہاد صرف یہی نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ( لا تتمنوا لقاء العدو، فاسئلو الله العافية)کہ ”للھ تعالیٰ سے عافیت مانگو اور دشمن سے بھڑنے کی خواہش نہ کرو۔“ لیکن اگر مڈبھیڑ ہوجائے تو پھر چوڑیاں پہن کر بیٹھ جانا بھی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ حدیث ہے کہ فإذا لقيتموهم فاصبروا واسئلوا التثبيت کہ جب فتنہ کی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے کہ لڑائی کے بغیر کوئی چارہ نہ رہے تو پھر اسلام مقابلہ میں ڈٹ جانے اور ثابت قدمی دکھانے کی تعلیم دیتا ہے۔ رئیس الجامعہ نے اسلام کا صحیح تصورِ جہاد واضح کرتے ہوئے جہادِ اسلامی پر انسا ئیکلوپیڈیا کے دعوے کے ساتھ لکھی گئی ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں جہاد اسلامی کا جو تصور پیش کیا گیا ہے وہ اسلامی تعلیمات کی درست ترجمانی نہیں ہے۔ مصنف نے محض لڑنے بھڑنے کو ہی جہادِ اسلامی کا نام دے دیا ہے، انہوں نے اس کتاب میں نقل کردہ ایک حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جہاد اس وقت سے ہے جب سے مجھے نبی بناکر بھیجا گیاہے۔“ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر جہاد محض لڑنے بھڑنے اور قتال کا نام ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں 13 سال تک لڑائی کیوں نہیں کی ؟ کیا آپ تیرہ سال اس حکم کی مخالفت کرتے رہے۔مولانا مدنی نے واضح کیا کہ مکہ میں جتنی بھی جہاد کی آیات نازل ہوئیں ، ان سے مراد لڑنا نہیں ہے۔ اس کے بعد انہو ں نے تحریک ِپاکستان میں روپڑی خاندان کے کردار، ان کی فکر اورنکتہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے پہل میرے والد مولانامحمد حسین روپڑی رحمۃ اللہ علیہ (شیخ الحدیث مدرسہ غزنویہ تقویہ الاسلام، لاہور) تحریک ِمسلم لیگ کو جمہوری سیاست قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کو جمہوری سیاستدانوں کے ہاتھوں کھلونا بننے کے مترادف سمجھتے تھے اور ہندووٴں اور سکھوں کے ساتھ قتال کو جہاد کا تقاضا سمجھتے تھے لیکن بعد میں ان کویہ سوچ تبدیل کرنا پڑی۔ البتہ ان کے بڑے بھائی حافظ عبداللھ محدث روپڑی کی رائے یہ تھی کہ محض قتال کانام ہی جہادنہیں ہے بلکہ جہاد یہ ہے کہ دین کو غالب کس طرح کیا جائے؟ لہٰذا انہوں نے وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس وقت مسلم لیگ کی حمایت کو اسلام کے حق میں صحیح قرار دیا۔ محدث روپڑی مسلم لیگ کے حامی تھے، لیکن خود سیاسی طور پر سرگرم نہیں تھے۔ البتہ ان