کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 80
کئی اہم عوامل کارفرما تھے، ان سب میں اہل حدیث نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ سب سے پہلے فتویٰ جہاد پر دستخط کرنے والے سید نذیر حسین محدث دہلوی تھے۔ اورعلم جہاد بلند کرنے والے سرخیل اہل حدیث نواب صدیق حسن خان کے نانا تھے جبکہ سب سے پہلے الگ وطن کا تصور پیش کرنے والے مولانا عبدالحلیم شرر تھے۔ قرار دادِ مقاصد کامتن تیارکرنے والے رہنما معروف اہل حدیث عالم مولانا غلام رسول مہر تھے، قراردادِ مقاصد کو پڑھ کر سنانے والے مولوی فضل حق تھے اور اس کے حق میں تائیدی کلمات کہنے والے مولانا ظفر علی خان تھے۔
قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے جس شخصیت کو پاکستان کا زندہ ضمیر قرار دیا تھا وھ مولانا راغب احسن تھے۔ مولانا ابراہیم میرسیالکوٹی کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ غیر مسلم لیگی اہلحدیثوں کے جلسوں میں شرکت نہیں کرتے۔ یہ سب لوگ اہل حدیث تھے اور 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کے حق میں بل پاس کرنے والی واحد جماعت بھی اہل حدیث تھی۔
٭ ان کے علاوہ تقریباً 10 مقررین نے مختلف انداز سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس میں جذبات کا سیل ِبلا تو تھا لیکن تحریک ِپاکستان میں اہل حدیث کا کردار، اس کی نوعیت اور دلائل سے اس کا صحیح حصہ متعین کرنے پر زیادہ دلائل نہیں تھے بلکہ اکثر نے دعووں پر زیادہ زور رکھا اوریہی الفاظ دہرائے کہ ہمارے اسلاف نے اپنی جانیں قربان کر دیں ، جان کی بازی لگا دی اورایسے لگ رہا تھا جیسے تحریک ِاہلحدیث میں خون کے چھینٹوں کے سواکچھ موجود نہیں ہے۔ بہرحال مجموعی اعتبار سے طلبہ کی کاوش قابل تحسین تھی،لیکن ضروت اس بات کی ہے کہ طلبا اپنی تقاریر میں جوشِ خطابت کے ساتھ واقعات ، اعداد وشمار اور ٹھوس دلائل پیش کریں ۔
خطاب رئیس الجامعہ
٭ آخر میں رئیس الجامعہ حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انہوں نے مقررین کے اندازِ خطابت میں جذبات کی فراوانی کو ایک درس گاہ کے تقاضوں کے منافی قرار دیا اور کھا کہ یہ اندازِ خطابت تو سیاست کا تقاضا ہے جو سیاسی یا عوامی جلسوں میں ہی چلتا ہے، لیکن افسوس کہ آج کٹ مرو، جان کی بازی لگا دو، بھڑ جاوٴ کی پالیسی کو جہادِ اسلامی سے تعبیر کیا جارہا ہے اور لڑنے بھڑنے کو ہی ہم نے اصل جہاد قرار دے دیا ہے۔ حالانکہ اسلام لڑنے مرنے کو کوئی اچھا فعل قرار نہیں دیتا کہ انسان کی ہیبت ناک وضع قطع ہو، ہاتھ میں تلوار