کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 8
نظامِ معیشت اور روزھ
نیز روزہ میں اُمت کو نظا مِ معیشت کی بھی تعلیم دی گئی ہے کہ مسلمان امیر و غریب ایک ہی وقت میں کھاتے پیتے ہیں ۔ روزہ کا مزید مقصد عطاے ہدایت کاشکریہ اور یاد آوری نزولِ قرآن ہے:
﴿وَلِتُكَبِّرُوْا اللهَ عَلٰى مَا هَدَا كُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ (البقرۃ:185)
”تاکہ تم اس عطاءِ ہدایت پر اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تقدیس کرو اور تاکہ تم اس نزولِ خیروبرکت پر خدا کا شکریہ بجا لاوٴ۔“
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن مجید کا نزول ماہ رمضان میں ہوا ہے، جیساکہ فرمایا:
﴿شَهْرُرَمَضَانَ الَّذِيْ أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ﴾(ایضا)
”یہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں نزولِ قرآن (کا آغاز) ہوا، وہ انسانوں کے لئے رہنما ہے، ہدایت کی روشن صداقتیں رکھتا ہے اور حق کو باطل سے الگ کردینے والا ہے۔“
اور یہ اُمت ِمسلمہ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان تھا کہ ان کی رہنمائی کے لئے کتاب عنایت فرمائی۔ اس عطاے ہدایت کا شکریہ بجا لانے اور نزولِ قرآن کی یاد آوری اور تذکیر کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کا روزہ فرض کردیا۔
روزہ اُسوہٴ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد ہے!
اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے قدوسیوں اورمحبوبوں کے کسی فعل کو ضائع نہیں کرتا اور اسے مثل ایک مظہر فطرت کے دنیا میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیتا ہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے خانہٴ کعبہ کی دیواریں چنیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس قربان گاہ کا طواف کیا، اللہ تعالیٰ کو اپنے دوستوں کی یہ ادائیں کچھ ایسی بھا گئیں کہ اس موقع کی ہر حرکت کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھنے کے لئے پیروانِ دین حنیفی پر اس یادگار کا منانا فرض کردیا۔ حج کا موسم آتا ہے تو لاکھوں انسانوں کے اندر اُسوہٴ خلیل علیہ السلام جلوہ نما ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر آدمی وہ سب کچھ کرتا ہے جو اب سے کئی ہزار سال قبل اللہ تعالیٰ کے دوستوں نے کیا تھا۔ یہی معنی ہیں اس آیت ِقرآنی کے:
﴿وَوَهَبْنَا لَهُمْ مِنْ رَحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ