کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 79
ملت ِاسلامیہ کی گردنیں ہمیشہ جھکی رہیں گی۔ اس کے بعد انہوں نے تحریک ِپاکستان میں راشدی خاندان، غزنوی خاندان، لکھوی خاندان اور روپڑی خاندان کی خدمات کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی تاریخ، تحریک ِاہل حدیث کے تذکرہ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ 1857ء سے لے کر قیامِ پاکستان تک اُنہوں نے ان قربانیوں کا تذکرہ کیا جو اہل حدیث نے غلبہ دین اور قیامِ پاکستان کے لئے دی تھیں ۔ ان کی تقریر میں لفاظی کا زور تھا، خطابت کا طنطنہ اور سلاست وروانی بخوبی موجود تھی۔ ٭ دوسرا انعام حاصل کرنے والے جناب شفیق الرحمن صاحب نے تحریک ِپاکستان وآزادیٴ ہند میں کباراہل حدیث شخصیات کی خدمات کا یکے بعد دیگرے اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جن میں سر فہرست شاہ اسماعیل شہید،مولانا عبدالقادر قصوری، مولانا محمد علی قصوری، مولانا ولایت علی ،مولانا عنایت علی، مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی، مولانا عبد القادر روپڑی، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی،مولانا عبد الحلیم شرر، مولانا غلام رسول مہر،مولانا داود غزنوی،مولانا ثناء اللہ امرتسری،مولانا اسمٰعیل سلفی ودیگر علما ے اہل حدیث جنہوں نے علمی حلقوں ،سیاست کے ایوانوں ،تقاریر ومناظرے کی فضاوٴں اور تحریک ِپاکستان اور آزادیٴ ہند کی کڑی منازل طے کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ٭ تیسراانعام حاصل کرنے والے محمد آصف جاوید صاحب کی تقریر مواد اور اندازِ خطابت دونوں کے اعتبار سے پراثر تھی۔انہوں نے اکثر مقررین کے برعکس تحریک ِشہیدین کو تحریک پاکستان کی خشت ِاوّل قرار دیتے ہوئے اس کی خدمات کا بڑے انوکھے انداز سے تذکرہ کیا اور تاریخ کے دلائل و براہین سے ثابت کیاکہ شہیدین نے اپنے مفتوحہ علاقوں میں جو نظامِ قائم کیا وہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا صحیح مصداق تھا۔انہوں نے اس اعتراض کہ”اہل حدیث کانگرس میں شامل تھے جہاں قرآن و سنت کے نفاذ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“ کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ سمیت متعدد مسلم لیگی لیڈر بھی پہلے کانگرس میں شامل تھے اور بوجوہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ایسے ہی اہل حدیث علما نے بعد میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور اس سلسلہ میں حافظ عبد القادر روپڑی کی مثال دی جاسکتی ہے جو روپڑ کی مسلم لیگ کے صدر تھے۔ انہوں نے دلائل سے یہ ثابت کیا کہ تحریک ِپاکستان جس کے پیچھے علمی، جہادی اور سیاسی