کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 78
(4) تقریری مقابلہ ’تحریک ِپاکستان میں اہل ِحدیث کا کردار‘ اس مذاکرہ کا انعقاد 8/اگست 2004ء بروز بدھ کو ہوا۔مقابلہ میں کل 13 طلبہ نے حصہ لیا۔ وکیل الجامعہ حافظ عبدالسلام فتح پوری، مدیر کلیہ الشریعہ مولانا محمد رمضان سلفی اور مولانا شفیق مدنی (سابق ناظم جامعہ) نے منصفی کے فرائض انجام دیے۔ رئیس کلیۃ القرآن الکریم قاری محمدابراہیم میرمحمدی اس بزم کے مہمانِ خصوصی تھے اور مرزا عمران حیدر سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ٭ قاری محمد اکمل کی تلاوت سے اس بزم کا آغاز ہوا، اس کے بعد باقاعدہ تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں ہم صرف نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے مقررین کے خیالات ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے، باقی تقاریر کے لئے سی ڈی حاصل کریں ۔ ٭ پہلا انعام حاصل کرنیوالے جناب محمد ابراہیم نے اپنی تقریر کا آغاز ان اشعار سے کیا: کون کہتا ہے میرے اسلاف کا خونِ جگر اس وطن کی خاک میں مل کر ہوا ہے بے نشان کون کہتا ہے میری محفل کی رونق کا لہو ان رقیبوں کی سازشوں نے کر دیا ہے رائیگاں انہوں نے مختلف واقعات سے واضح کیاکہ ہندوستان میں غلبہ دین کی ہر کوشش خصوصاً تحریک ِپاکستان میں اہل حدیث نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اہل حدیثوں نے صحراوٴں کو گلشن بننے کا عزم دیا، دریاوٴں کو رخ بدلنے پر مجبور کیا، مسلمانوں کی ذہانت عروج پر تھی تو کردار اہل حدیث کا تہا، برصغیر میں مسلمانوں کی ثقافت ثمر بار ہوئی تو کردار اہل حدیث کا تھا، مسلمانوں کی سوئی ہوئی قسمت جاگی تو کردار اہل حدیث کا تھا، اقبال کی شاعری انقلاب میں ڈھلی توکردار اہل حدیث کاتھا اور پھر مملکت خداداد وجود میں آئی تو کردار اہل حدیث کا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کالے پانی اور مالٹا کی اسیر اہل حدیث کی ان تاریخ ساز ہستیوں کی آزمائشوں کا بڑے دردناک انداز سے تذکرہ کیا۔درحقیت یہی خون سے رنگی ہوئی بنیادیں تھی جوبعد میں تحریک ِپاکستان کا باعث ہوئیں ۔ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے کہا تھا کہ اگر ہمیں کسی جماعت سے خطرہ ہے تو وہ تحریک ِاہل حدیث اوروہابیوں کی جماعت ہے۔ قائد اعظم نے راغب احسن کوپاکستان کا زندہ ضمیر قرار دیا تھا، عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہاتھا کہ اہل حدیث کی خدمات سے