کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 74
ہے کہ ان سے عقیدہ و عمل کی کسی شے کا دین میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔“
یہ مکتب ِفکر سنت کو وحی تسلیم نہیں کرتا، کیونکہ یہ فطرت کی بنیاد پر اس اُمت میں جاری ہوئی ہیں نہ کہ وحی کے ذریعے۔ محدث جولائی 1995ء میں وہ مکمل خط وکتابت چھپی ہے جس میں غامدی صاحب نے سنت کو وحی ماننے سے آخردم تک گریز کیا ہے۔
سنت کے بارے میں ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ ”قرآن کی تفسیر میں یہ سنت نظم قرآن یا قرآن کی عربی معلی سے ٹکرا جائے تو ترجیح لغت عرب کو اور نظم قرآن کو ہوگی، نہ کہ سنت کو۔“ دیکھئے( ’مبادیٴ تدبر قرآن‘ از مولانا امین احسن اصلاحی:ص 191 تا 217)
خطاب مہمانِ خصوصی
٭ آخر میں مذاکرہ کے مہمانِ خصوصی مدیر محدث حافظ حسن مدنی صاحب کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ انہوں نے طلبہ کے جذبات اور انتظامیہ کی اس عمدہ کاوش کو سراہا اور افسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج لوگوں کی مرعوبیت و جہالت کا سب سے زیادہ تختہٴ مشق دین اسلام ہے۔ فرقہ غامدیہ نے احادیث کے بارے میں ایسی نئی نئی اصطلاحات وضع کی ہیں جن کا سلف کے ہاں وجود نہیں ہے اور پرانی اصطلاحات کو ایسے معانی پہنائے ہیں جو ان کے وضع کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے ۔ یہ فرقہ عملاًاسلام پر فکری اور ثقافتی یلغار میں ہراول دستہ کا کردار ادا کررہا ہے ۔اور اسلام کو ایسا لباس پہنانے پر تلا ہوا کہ جس سے مغربی مفادات بھی پورے ہو جائیں ۔
انہوں نے کہا کہ اس گروہ نے اصطلاحات سے کھیل کر عوام الناس کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ان کی وضع کردہ اصطلاحوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے یہاں دینی مدرسہ کے طلبہ فزکس یا ریاضی کی اصطلاحات مقرر کرنا شروع کردیں ۔ جس طرح ہماری مقرر کردہ اصطلاحات کا ان علوم کے ماہرین کے ہاں کوئی وزن نہیں ہوگا، ایسے ہی ان کی وضع کردہ اصطلاحات علما کے ہاں پرکاہ کی حیثیت نہیں رکھتیں ۔ لیکن افسو س کہ ان کی اصطلاحات کو وزن دینے والے عوام الناس ہیں ، جبکہ کوئی اصطلاح عوام الناس کے بجائے اس فن کے ماہرین کی طے کرد ہ ہوتی ہے۔
انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ عوام الناس کو یہ کہہ کرمطمئن کرتے ہیں کہ ہم سنت ِرسول کو مانتے ہیں لیکن یہ ان کا صریح دھوکہ ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کے ہاں