کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 73
کی تفسیر میں اصلاحی صاحب نے تمام مفسرین کے برخلاف پہلے ’نور‘ سے مراد ’نورِ فطرت‘ اور دوسرے نور سے مراد ’نورِ شریعت‘ لیا ہے۔ یعنی وہ نورِ شریعت کو نورِ فطرت و فلسفہ کے تابع سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں نورِ فطرت ہی اصل شرع ہے جب کہ وحی اس نور کا محض بیان ہے۔ یہ وہی بات ہے جو معتزلہ کئی برس سے کہتے آرہے ہیں کہ احکاماتِ دین پہچاننے اور جاننے کا اصل ذریعہ عقل و فلسفہ ہے۔ چنانچہ اگر کسی قوم تک رسول نہ بھی پہنچے تو وہ پھر بھی احکاماتِ الٰہیہ کی مکلف ٹھہرے گی۔ اسی طرح اگر اس ’اصل شریعت‘ (فلسفہ و عقل) کا ٹکراوٴ وحی الٰہی سے ہوجائے تو ترجیح ’اصل‘ کو ہوگی۔ (الوجیزفی أصول الفقہ مترجم:ص 90 تا94) اُنہوں نے کہا کہ غامدی مکتب ِفکر کے نزدیک قرآن وحدیث کا تصور اور عقیدہ اُمت سے مختلف ہے۔ چنانچہ غامدی صاحب ’اُصول و مبادی‘ میں بار بارلوگوں کی یہ غلطی پیش کرتے ہیں کہ وہ قرآن کو کل شریعت کی کتاب سمجھ کر اس کا مطالعہ کرتے ہیں حالانکہ یہ شریعت کا محض آخری ایڈیشن ہے، جبکہ شریعت اس کے علاوھ بھی ہے۔(میزان:ص47) اس باقی شریعت کو حدیث کی بجائے یہ ماقبل شریعتوں میں تلاش کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس مکتب ِفکر کے ہاں حدیث ِنبوی کی بجائے اسرائیلیات کو کثرت سے دلیل بنایا جاتا ہے۔ ایسے ہی باربار ’مباحات ِ فطرت‘کی اصطلاح بول کریہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ چیزیں اصل ہی سے جائز ہیں ۔ ایسے ہی مولانا اصلاحی اپنی تفسیر میں آیت ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ﴾ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ”کتاب سے مراد ’قرآن سمیت کتب ِسابقہ‘ ہیں ۔“ (ج4 / ص657) مزید برآں سنت ِنبوی کے بارے میں بھی ان کاعقیدہ وتصور عامة المسلمین سے مختلف ہے،ان کی نظر میں سنت ’محمدی‘ نہیں بلکہ ’ابراہیمی‘ ہوتی ہے، جس کا تصور یہ ہے کہ ”سنت ملت ِابراہیمی کے ایسے تسلسل کو کہتے ہیں جو کہ قانونِ فطرت کی بنیاد پر آگے چلتا ہے اور اس کو نبی کریم اخذ کرکے اس اُمت میں عملی تواتر کے ساتھ جاری فرماتے ہیں ۔“ یہاں اُنہوں نے ان سنتوں کی ایک فہرست بھی دی ہے جس میں 10 بنیادی فطرتیں وہی ہیں جو حدیث ِنبوی میں بیان ہوئی ہیں ۔ (میزان:ص10) جہاں تک حدیث ِنبوی کا تعلق ہے تو خبرمتواتر کے بارے میں مولانا اصلاحی کا کہنا ہے کہ ”یہ محض اسم ہی ہے جس کا محدثین کے پاس کوئی مسمی نہیں ۔“ (مبادیٴ تدبر حدیث:ص20) رہیں اخبار احاد تو وہ مجموعہ رطب و یابس ہیں ۔ غامدی صاحب اپنی کتاب ’میزان‘ کے صفحہ 10 پر لکھتے ہیں :”ان اخبار کے بارے میں ہمارانقطہ نظر یہ