کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 72
(المیزاناز جاوید احمدغامدی: ص48پر ’مآخذ دین کی ترتیب‘ اور ص52 )
یعنی سنت ِابراہیمی شریعت کا اہم مصدرہے، جبکہ اس شرع کے مختص اُصولوں کا بیان قرآن میں ہے۔فطرت کو اہمیت دینے کی وجہ سے غامدی گروہ فلاسفہ سے غیرمعمولی عقیدت رکھتا ہے۔ فلسفہ کے تین ادوار میں اوّلین دور فلاسفہ مُنشّئین کاہے جن میں افلاطون، سقراط، بقراط اور ارسطو جیسے فلسفی آتے ہیں ۔فلاسفہ سے ان کی عقید ت ملاحظہ فرمائیے کہ فکر اصلاحی کے ترجمان سہ ماہی ’تدبر‘ میں چندماہ قبل یہ سوال جواب شائع ہوا :
سوال: کردار کے لئے سقراط کی مثال کیوں دی جاتی ہے؟ مسلمانوں میں سے امام مالک یا امام احمد بن حنبل وغیرہ کی مثال بھی تو جاسکتی تھی، مگر کافر کی مثال کیوں دی جاتی ہے؟
جواب از مولانا اصلاحی : سقراط کو کافر کہنا بڑی زیادتی ہے،میں اس کو کامل موحد مانتا ہوں ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ دوسری قوموں میں بھی انبیا پیدا ہوئے، سقراط کے متعلق ہم یہ تو نہیں کہتے کہ وہ نبی ہیں لیکن دوسری بہت سی قوموں میں بھی نبی بھیجے گئے، اس لئے ہم اس کا انکار بھی نہیں کرسکتے۔فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے۔“ مختصراً (تدبر:مارچ 2004ء ص 83)
فلاسفہ کا تیسرا دور ’فلاسفہ اسلامیین‘ یعنی معتزلہ کا ہے۔ انکے بارے میں جناب غامدی کی رائے یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی مساعی جمیلہ کی بدولت آج ہم دین و شریعت سے فیض یاب ہورہے ہیں اور ان کے بالمقابل محدثین کے طبقہ کو ’روایت پسندوں اور قدامت پرستوں کا ٹولہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ فرقہ اعتزال کے طعنہ کو اپنے لئے گالی نہیں بلکہ اعزاز سمجھتا ہے ۔
حافظ حمزہ مدنی نے اس فکر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ سترہویں صدی عیسوی میں صنعتی انقلاب کے آنے کے بعد فلسفہ یونان نے منطق استخراجی کے بجائے منطق استقرائی کی صورت اختیار کرتے ہوئے سائنس کی شکل اختیار کی۔ پہلے جہاں مابعد الطبیعاتی اُمور کا مطالعہ اہم تھا، اب طبیعاتی اُمور اہم قرار پائے۔ عموماً سائنس کا موضوع مظاہر فطرت ہیں ۔ فطرت کو انگریزی میں نیچربھی کہتے ہیں ۔ برصغیر میں اسی سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے سرسید خان نے نیچرکی بنیاد پر ہر اس تصور کا انکار کردیا جو اس کے خلاف تھا۔ سرسید سے یہ خیالات انکے رفیق کار مولانا حمید الدین فراہی میں منتقل ہوئے، وہاں سے مولانا اصلاحی اور پھر جاوید غامدی تک پھنچے.
انہوں نے کہاکہ یہ لوگ دین کی بنیاد فطرت پر سمجھتے ہیں اور اس فطرت کو وحی سے برتر قرار دیتے ہیں ، اس سلسلے میں مولانا اصلاحی کا ایک واقعہ بیان کیا کہ سورۂ نور میں ’نور علیٰ نور‘