کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 71
حدیث میں اقرارِ رسالت کا تذکرہ نہیں ، لہٰذا یہ درایت کی رو سے قابل ردّ ہے۔ انہوں نے کہا میرا اصلاحی صاحب کے بارے میں حسن ظن تھا ،لیکن ان کی کتب کے مطالعے کے دوران وہ سب تارِ عنکبوت کی طرح بکھر گیا کہ اتنا بڑا عالم اور اس قدر سطحی باتیں کرتا ہے۔ ان کے یہ تمام نظریات جادۂ مستقیم سے منحرف اور اجماعِ امت کے خلاف ہیں ۔ ابراہیم بن ابی عبلہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے من حمل شاذ العلماء حمل شرًا كبيرًا ”جس نے علماکی شاذ آرا کو اختیار کیا، اس نے بہت بڑی شر کو اٹھا لیا۔“ اور امام شافعی ﴿وَيَتَّبِعْ غَيْرِ سَبِيْلِ الْمُوْمِنِيْنَ﴾ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ”اس آیت پر تین دن غور کرنے کے بعد مجھ پر یہ بات منکشف ہوئی کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو امت کے اجماعی دھارے کو چھوڑ کر شواذ آرا کو اختیار کرتے ہیں ۔“ ٭ مقابلہ کے خاتمہ کے بعد مدیر کلیہ القرآن حافظ حمزہ مدنی کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ عزیز طلبہ نے اپنے خطابات میں غامدی گروہ کی متعدد غلطیوں کی نشاندہی تو کی ہے لیکن کسی مکتب ِفکر کی بنیاد دراصل اس کے اُصول ہوتے ہیں ، جس پر اس فکر کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔خود غامدی صاحب نے بھی پرویز کے اُصول تفسیر پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ادارۂ اشراق کی روش قرار دیا ہے کہ ہم دوسروں پر اُصولی تنقید کرتے ہیں ۔ (دیکھئے کتابچہ ’پرویزکا فہم قرآن‘) چنانچہ ضروری ہے کہ غامدی مکتب ِفکر پر بھی اُصولی تنقید کی جائے… اُنہوں نے کہا کہ غامدی گروہ نے ائمہ اسلاف کو چھوڑ کر بالکل نئے اُصول وضع کرلئے ہیں ۔ائمہ اسلام کے ہاں اسلام کی بنیاد قرآنِ کریم، احادیث ِنبویہ پر ہے اور انہی سے اجماع اور قیاس کا بھی اسلامی مصدر ہونا ثابت ہوتا ہے۔(مجلہ ’الحدیث‘ حضرو جون 2004ء، ص 4) جبکہ جاوید غامدی ’میزان‘ کے صفحہ 48 پر بنیادی مآخذ ِدین ترتیب وار یوں بیان کرتے ہیں : (1) دین فطرت کے حقائق (2) سنت ِابراہیم (3) نبیوں کے صحائف ان کے نزدیک دین اسلام کی اصل بنیاد فطرت پر ہے، اس کے بعد سنت، پھر صحائف یعنی تورات، زبور اور قرآن وغیرہ۔ گویاان کی نظر میں دین و شریعت کے بارے میں سنت کو بھی جو اہمیت حاصل ہے، وہ قرآن کو نہیں اور ان دونوں سے قبل فطرت، ’میزان‘ میں لکھتے ہیں کہ ”جس سنت کو وہ مانتے ہیں ، اس کا درجہ ان کی نظر میں قران کے بعد نہیں بلکہ پہلے ہے۔ “