کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 7
ہوئے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے، فرمایا:
﴿يٰأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ:183)
”مسلمانو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں ، جس طرح تم سے پہلی اُمتوں اور قوموں پر لکھے گئے تھے، تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔“
﴿عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ﴾کو قرآن نے مبہم بیان کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فریضہ کسی خاص گروہ پرعائد نہیں تھا، بلکہ سب امتوں پر تھا۔
روزہ کے لغوی اور اصطلاحی معانی
’روزہ‘ کے لغوی معنی رکے رہنے کے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں ’وقت ِمخصوص میں اشیاءِ مخصوصہ سے رکے رہنے‘ کو روزہ کہا جاتا ہے۔ اس کی فرضیت کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔
قرآن پاک میں ہے:
﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ﴾
یعنی ”ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں ۔“ (البقرۃ:183)
نیز حدیث شریف میں ہے کہ ایک آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ مجھ پر کتنے روزے فرض ہیں تو آپنے فرمایا:ماہ رمضان کے۔“ اور اس فرضیت پرپوری اُمت کا اجماع ہے۔
روزہ کا فلسفہ
قرآنِ حکیم نے دوسری عبادات کی طرح روزہ کا مقصد بھی یہی بیان فرمایا ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ تقویٰ کی حقیقت قرآن کی اصطلاح میں یہی ہے کہ نفسانی خواہشات اور جسم و روح کی تمام دنیاوی آلائشوں اور انسانی کمزوریوں سے انسان محفوظ رہے۔ روزہ میں تقلیلِ غذا کے سبب انسان کے قواے شہویہ اور غضبیہ کمزور ہوتے ہیں جو تمام شرور و رذائل کا منبع ہیں جیساکہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے :
روزھ برجوع و عطش شبخون زند
خیبر تن پروری را بشکند