کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 69
معاشرہ روا ج دینا اور اسلامی روایات کو مسخ کرنا ہے اور جناب اصلاحی کا صحابی رسول ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ کو(نعوذ باللھ) غنڈہ قرا ردینا ا ن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (لقد تاب توبة لو قسمت بين أمتي لوسعته)پر عدمِ اعتماد کا اظہار ہے۔ اوروہ اللہ کا بندہ جس نے گناہ کے شدید احساس سے اپنے آپ کو رجم کیلئے پیش کردیا تھا ،اسکے بارے میں یہ الفاظ انتہائی ظلم ہیں ۔ ایک مسلمان ایک صحابی رسول کے ساتھ ایسا ظلم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
٭ اس کے بعد اس بز م کے آخری مقرر جنہوں نے پہلا انعام حاصل کیا وہ جناب طاہر الاسلام عسکری تہے۔ انہوں نے دھیمے مگر انتہائی پراثر لہجہ میں فرقہ فراہیہ کے گمراہ کن نظریات ، ان کے دلائل، بنیادیں اور منہج سلف کی روشنی میں ان کی غلطیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے نہایت خوبصورت انداز سے ان کا ردّ کیا۔
انہوں نے بیان کیا کہ فرقہ فراہیہ احادیث کو وحی تسلیم نہیں کرتا، مئی 1995ء کے شمارہ محدث میں جناب غامدی سے اُمّ عبدالربّ کی طویل خط و کتابت، جن میں بار بار ان سے یہ سوال دہرایا گیا کہ آیا احادیث ِرسول وحی ہیں یا نہیں ؟ لیکن ان کی شاطرانہ ذہانت بار بار اس سوال کو گول کرتی رہی، معلوم ہوا یہ فرقہ صرف قرآن کو وحی تسلیم کرتا ہے ،احادیث کو وحی تسلیم نہیں کرتا، حالانکہ قرآن کی آیت :
﴿ وَإذْ أَسَرَ النَّبِىُّ إلٰى بَعْضِ أَزْوَاجِه حَدِيْثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِه وَأَظْهَرَهُ اللهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِه قَالَتْ مَنْ أَنْبَاَكَ هٰذَا قَالَ نَبَّأَنِىَ الْعَلِيْمُ الْخَبِيْرُ﴾ (التحریم:3)یہاں اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی کوایک خبر بتلانے کا ذکر ہے ،لیکن وہ خبر قرآن مجید میں موجود نہیں ہے، تو اس سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی آپ پر وحی نازل ہوتی تھی۔نیز ﴿وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾ میں علماء نے الحكمة سے متفقہ طو رپر سنت مراد لی ہے ۔ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
فالكتاب ما يتلى والحكمة السنة وهو ينزل به بغير التلاوة
”کتاب وہ ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے اور حکمت سے مراد سنت ہے، وہ منزل من اللہ ہوتی ہے، لیکن اس کی تلاوت نہیں کی جاتی۔“
ایسے ہی حدیث ِنبوی کے وحی ہونے پر قرآن کریم کی متعدد آیات دلالت کرتی ہیں ۔ یہ فرقہ عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے حدیث کے حجت ہونے کا بظاہردعویٰ کرتا ہے لیکن اوّل تو یہ حدیث کے حجت ہونے کا بھی قائل نہیں ، مزید برآں ایک شے کا حجت ہونا اور شے ہے