کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 68
٭ دوسرے نمبر پر آنے والے علی القاری نے اس فکر کو پاپائیت اور کلیسا کے خلاف اُٹھنے والی مغربی اور سیکولر سوچ کا شاخسانہ قرا ردیتے ہوئے جاوید احمد غامدی کو مغربی تہذیب کا پرچارک قرار دیا اور بتایا کہ غامدی اپنے خود ساختہ اُصولوں سے قرآن و سنت کی بنیادیں منہدم کررہا ہے۔ یہ قرآن کریم کو دین کامل کی بجائے آسمانی کتب کا تتمہ اور فلسفہ شریعت کی آخری کتاب کہتا ہے اور قراء اتِ متواترہ کا انکار کرکے گویا نصوصِ قرآن کا انکار کررہا ہے۔ انہوں نے جناب غامدی کی اس فکر کہ حدیث اگر قرآن سے متصادم ہو تو اسے قبول نہ کیا جائے گا، کا ردّ کرتے ہوئے کہا کہ قرآن وحی جلی ہے اور حدیث وحی خفی ہے، لہٰذا صحیح حدیث اور آیت قرآنی میں کوئی تصادم اور منافات ہونا ممکن نہیں ۔یہ انسانی عقلوں کا واہمہ تو ہوسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ایک بات دوسری سے متصادم نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے وضاحت کی کہ جناب غامدی نے خطیب بغدادی کی کتاب الكفاية کی عبارت سے جو استدلال کیا ہے، وہ محض تلبیس ہے کیونکہ وہاں مصنف نے یہ عبارت بطورِ اُصول پیش نہیں کی بلکہ ضعیف حدیث کو پہنچاننے کی علامت کے طور پر ذکر کی ہے۔انہوں نے فرقہ فراہیہ کے ایک اعتراض کہ ”محدثین نے حدیث کو خبر سے تعبیر کیا ہے اور خبر میں صدق وکذب دونوں کا احتمال ہوتا ہے، لہٰذا حدیث ظنی ہے۔“ کا جواب دیتے ہوئے کہا :یہ اس وقت ہے جب خبر کی تحقیق نہ ہوئی ہو، خبر دینے والے کا علم نہ ہو، لیکن صحیح احادیث کا معاملہ بالکل مختلف ہے ۔ان احادیث کے تمام راویوں کے حالات محفوظ ہیں اور محدثین نے تحقیق کے بعد ان کی صحت کوثابت کیا ہے اور بخاری و مسلم کی تمام احادیث کی صحت پر بقول شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ پوری اُمت کا اتفاق و اجماع ہے۔یوں بھی محدثین حدیث کو مطلقاً خبر قرار نہیں دیتے بلکہ ان کے نزدیک خبر کا لفظ سیاسی یا معاشرتی نوعیت کی روایات پر بولا جاتا ہے، اس لئے حدیث اور خبر کا کلیتاً مترادف سمجھنا درست نہیں ہے۔
انہوں نے جناب اصلاحی کے اعتراض کہ ”حدیث ِمتواتر کااسم تو موجود ہے،مسمیٰ موجود نہیں ہے۔“ کا ردّ کرتے ہوئے کہا کہ محدثین نے متعدد احادیث کے تواتر کو ثابت کیاہے، امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور امام کتانی رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث ِمتواترہ پر خصوصی کتب تالیف کی ہیں جن میں تمام اخبارِ متواترہ کو درج کیا گیا ہے۔اس کے بعد انہوں نے غامدی اور اصلاحی کے چند تفردات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا ردّ کیا۔ انہوں نے کہا کہ غامدی کا پردہ کے انکار سے مقصود مخلوط