کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 67
ہوئے ان کا ناقدانہ جائزہ لیا اور ان کا بطلان واضح کیا۔ ٭ تیسرا انعام حاصل کرنے والے جناب قاری کلیم اللہ فاروقی انہوں نے انکارِ حدیث کی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے معتزلہ، خوارج، روافض اور اہل رائے کا انکارِ حدیث میں کردار ذکر کیا اور بتایا کہ سابقہ ادوارمیں حدیث کا کلیتاً انکار کسی نے بھی نہیں کیا۔ سب سے پہلے حدیث کا کلیتاً انکار کرنے والے عبداللہ چکڑالوی اور اس کی معنوی اولاد ہے۔انہوں نے فراہی، اصلاحی اور غامدی کو بھی انکارِ حدیث کی راہ کھولنے والے قرار دیاکیونکہ ان لوگوں نے چکڑالوی اور پرویز کی طرح کلیتاً احادیث کا انکار تو نہیں کیا لیکن ایسے اصول اور رجحانات اختیار کئے ہیں جن کا نتیجہ احادیث سے بے اعتنائی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ مقرر نے واضح کیا کہ ان تین شخصیات نے انکارِ حدیث کے رجحانات تدریجاً اختیار کئے ہیں ، اور مسلماتِ اسلامیہ سے انحراف کی جو شدت غامدی کے ہاں ملتی ہے، اصلاحی کے ہاں موجود نہیں ۔ایسے ہی مولانا فراہی مولانا اصلاحی کی نسبت زیادہ محتاط تھے۔مولانا فراہی اپنے ان خیالات میں سرسید سے متاثر ہوئے، سرسید کے خیالات کا یہی اثر مولانا فراہی کے چچا زاد بھائی مولانا شبلی نعمانی کے ہاں بھی ملتا ہے۔ جب انہوں نے مقدمہ سیرۃ النبی میں حدیث کے درایتی فلسفہ کی بنیاد رکھی جو انکارِ حدیث کا بڑا چور دروازہ ہے۔اس درایتی فلسفہ کو باقاعدہ اُصول وقوانین کی شکل میں بعد میں مولانا اصلاحی نے ’مبادیٴ تدبر حدیث‘ میں مدوّن کیا۔یہ درایتی فلسفہ اس سے قبل معتزلہ کے علاوہ اُمت میں سے کسی نے اختیار نہ کیا تھا لیکن دورِ جدید میں اس کو زندہ کرنے کا سہرا انہی حضرات کے سرہے۔ انہوں نے کہا کہ جاوید غامدی معتزلہ کے ساتھ فکری ہم آہنگی رکھتے ہیں اور ان سے اپنی نسبت کو الزام کے بجائے اعزاز تصور کرتے ہیں ۔ اس کے بعد اُنہوں نے غامدی اور اصلاحی کے بعض اُصولی تفردات مثلاً حدیث سے عقیدہ اور عمل میں کوئی اضافہ ہونے کا انکار اور احادیث کو ظنی قرار دینے کا تذکرہ کیا۔ اورحدیث کے ظنی ہونے کا مفہوم واضح کیا، اور اس کے بعد اجماعِ امت سے منحرف غامدی گروہ کے بعض تفردات کا تذکرہ کیا مثلاً اسلام کے قانونِ شہادت کا انکار ، حد ِرجم کا انکار، قراء اتِ قرآنیہ کا انکار، وراثت کے مسئلہ عول کا انکار، قتل مرتد کا انکار، دجال اور یاجوج ماجوج کے خروج کا انکار ،چہرہ کے پردہ کا انکار، حدیث کو وحی ماننے سے انکار وغیرہ