کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 66
نوٹ: ق سے مراد کلیۃ القرآن اور ش سے مراد کلیۃ الشریعۃ کے طلبہ ہیں ۔ ٭ پانچویں پوزیشن حاصل کرنے والے جناب قاری فہد اللہ نے قرآنِ کریم کی آیت ﴿إيْتُوْنِىْ بِكِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ هٰذَا أَوْ أثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ﴾ (الاحقاف:4) سے اپنی تقریرکا آغاز کیا۔ انہوں نے انکارِ حدیث کی مختصر تاریخ پیش کرتے ہوئے ادارۂ طلوعِ اسلام کے بانی مسٹر غلام احمد پرویز کو فتنہٴ انکار حدیث کا نقطہ عروج قرار دیا اور کہا کہ آج اس فتنے کا سرخیل مسٹر جاوید احمد غامدی ہے۔اس کے بعد انہو ں نے علمی انداز میں جناب پرویز اور جاوید احمد غامدی میں فکری ہم آہنگی اور مماثلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر پرویز اس کشتی کاملاحِ اوّل تھا تو آج غامدی ملاحِ ثانی ہے۔ پرویز قرآنِ کریم کو شریعت کی بجائے فلسفہ شریعت قرار دیتا ہے تو جناب غامدی اسے مکمل شریعت کی بجائے حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہونے والی شریعت کا تکملہ قرار دیتے ہیں ۔پرویز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک حاکم اور احادیث کو ایک حاکم کی زندگی کا تحریری ریکارڈ کہہ کر شرعی حجت ماننے سے انکار کرتا ہے تو غامدی نے ظنی الثبوت کہہ کر عقیدہ و عمل میں حدیث کی شرعی حجیت کو ٹھکرا دیا ہے۔پرویز نے حدیث کو چھوڑ کر صرف لغت ِعربی سے قرآن کی تفسیر کی ہے تو غامدی ادبِ جاہلی کے حامل زہیر اور امروٴ القیس کو پیغمبر آخر الزماں کی حدیث پر فوقیت دیتا ہے۔ اسی طرح دونوں اجماعِ اُمت کی حجیت کے قائل نہیں نیز غامدی صاحب پرویز کو منکر ِحدیث ماننے سے بھی گریزاں ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے بعض تفردات مثلاً انکارِ جہاد، نزول عیسی علیہ السلام وغیرہ میں ان کی فکری مماثلت کو بیان کرتے ہوئے ثابت کیا کہ پرویز اور غامدی میں کوئی فرق نہیں ہے۔انہوں نے تمام تر فکری انحراف کا بنیادی مرض مغرب سے مرعوبیت اور دین اسلام سے جہالت قرار دیا۔ ٭ چوتھے نمبر پر آنے والے عبدالحنان نے فرمانِ الٰھی:﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابُ أَلِيْمٌ﴾ سے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور عقیدہ، اُصولِ تفسیر، اُصولِ حدیث اور اُصولِ فقہ کے حوالہ سے فکر ِفراہی، اصلاحی اور غامدی کے تفردات مثلاً فطرت کو شرع پر ترجیح دینا، تفسیر قرآن کے مصادرکی ترتیب کا ائمہ سلف سے مختلف ہونا، حدیث و سنت میں فرق کرتے ہوئے انہیں وحی نہ ماننا، درایت کے نام پر خلافِ ِعقل احادیث کو ردّ کرنا، احادیث سے قرآن کی تفسیر کرنے والوں کو روایت پسند قرار دینا، احادیث ِمتواترہ کے وجود سے انکار اوران کے اجماع مخالف دیگرنظریات کا تذکرہ کرتے