کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 6
ومصالح سے غفلت کیشی ہے۔ روزہ اس حالت میں فرض ہوا تھا جب مسلمانوں کو ہر طرف سے مالِ غنیمت ہاتھ لگنا شروع ہوگیا تھا اور ہر قسم کے طرب و نشاط کے اسباب مہیاتھے۔پھر اس کو فاقہ کشی کی رسم کی یادگار کھنا تاریخی حقیقت سے چشم پوشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
روزہ صحت بخش عبادت ہے!
باقی رہا متمدن زندگی تو دن بھر میں پانچ مرتبہ چرنے کو متمدن زندگی کہنا ع ’برعکس نام نہند زندگی کافور‘کا مصداق ہے۔دیکھئے:
قال بعض أطباء الأفرنگ أن صيام شهر واحد في السنة يذهب بالتفضلات الميتة في البدن مدة سنة (تفسیر المنار)
یعنی ”بعض انگریز ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ سال بھر میں ایک ماہ روزہ رکھناجسم کے سال بھر کے ردّی فضلات کا خاتمہ کردیتا ہے۔“
شارع علیہ السلام نے بھی اسی لئے روزہ کو موجب ِصحت کہا ہے، فرمایا:
اغزوا تغتنموا صوموا تصحوا سافروا تستغنوا (رواه الطبرانى فى الاوسط)
یعنی ”جہاد کرو تو غنیمتیں حاصل ہوں ، روزہ رکھو تو تندرست رہو اور سفر کرو تو تونگری حاصل ہو۔“
ایک دوسری حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جو اسی کی موٴید ہے فرمایا:
صوموا تصحّوا (رواھ ابونعیم فی ا لطیب)
یعنی ”روزہ رکھو تو تندرست رہو گے۔“ لہٰذا معلوم ہوا کہ روزہ نہ تو وحشیانہ رسم کی یادگار ہی ہے اور نہ ہی متمدن زندگی کے خلاف بلکہ اُصولِ صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر انسان کے لئے روزھ رکھنا ضروری ہے۔
صیامِ رمضان
اسلام میں عبادت کے پانچ اہم شعبے ہیں جن کو شریعت ِحقہ کی اصطلاح میں (ارکانِ خمسہ) کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ ان ارکانِ خمسہ کے بارعایت شروط ادا کرنے سے اصلاحِ قلب اور تزکیہٴ نفس ہوتا ہے اور ہر ایک عبادت اغراض و مقاصد پر مشتمل ہے۔یہاں ہمیں صرف روزہ کے متعلق عرض کرنا ہے کہ ہر مسلمان اسے پورے ضابطہ اور پابندی سے ادا کرے تاکہ اس کی طبع پر اس کے فوائد مرتب ہوں ۔ روزہ ایک ایسی رسم عبادت ہے جو دنیا کے تمام مذاہب ِحقہ اورباطلہ میں مروّج ہے۔ قرآن نے بھی روزہ کی فرضیت بیان کرتے