کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 51
ہے کہ دونوں شعبے ایک دوسرے کی مہارت سے فائدھ اُٹھائیں ، اور دونوں شعبوں سے فارغ ہونے والا طالب ِعلم شریعت ِاسلامیہ کا عالم ہونے کے ساتھ کم از کم قراء تِ حفص کا قاری بھی ہو۔ تجوید وقراء ت کے فروغ کے سلسلہ میں انہوں نے جامعہ کی عظیم خدمات کو سراہا اور اس کام کو روایت ساز قرار دیا جس سے قرآن کو علومِ اسلامیہ میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ خطاب رئیس الجامعہ ٭ آخر میں رئیس الجامعہ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کو دعوت دی گئی۔ اُنہوں نے قراء اتِ قرآنیہ کے حوالے سے مسلمانوں میں پائے جانے والے افراط و تفریط کے رویہ اور قراء اتِ قرآنیہ کے بارے میں یہ نظریہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ’سبعہ احرف‘ میں سے چھ حروف ختم کردیے تھے، پر کڑی تنقید کی اور اس موقف کو غلط قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی اس رخصت کو بھلا کیسے ختم کرنے کی جرأت کرسکتے تھے، دنیا بھر کے لوگ بھی اگر اس کو ختم کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے، کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے اٹھایا ہے: ﴿إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإنَّا لَه لَحَافِظُوْنَ ﴾ دو افسوسناک امر :انہوں نے کہا کہ فیصل آباد کے قاری محمد طاہرنے پنجاب یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ 1995ء میں پیش کیاجس میں انہوں نے قراء اتِ سبعہ اورپاکستان میں تجوید و قراء ت کے مدارس کو موضوع بنایا ہے۔ رئیس الجامعہ نے بیان کیا کہ مجھے اس میں دو چیزیں پڑھ کر نہایت افسوس ہوا؛ ایک یہ کہ ایسا شخص جو معروف قاری ہونے کے علاوہ ’قراء ت‘ پر ایک مجلہ کا ایڈیٹر بھی ہے اور اسی موضوع پر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہا ہے۔ لیکن وہ سبعہ احرف کے بارے میں ایسا موقف پیش کرتا ہے جو انتہائی مرجوح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف ختم کردیے تھے اور اس وقت جو قراء ات ہیں ، وہ صرف ایک حرف ہیں ۔ دوسرا افسوسناک امر یہ ہے کہ مقالہ نگار نے خصوصاً پاکستان میں تجوید و قراء ت کے مدارس کا تعارف پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے تمام مدارس کا احاطہ کیا ہے اور پورے پاکستان کادورہ کرکے ایک ایک ادارہ میں خود پہنچے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ اس میں سب اداروں کا تذکرہ ہے، لیکن جامعہ لاہور الاسلامیہ کے شعبہ كلیۃ القرآن جو فن تجوید وقراء ت کی خدمت میں کارہائے نمایاں کا حامل ہے، کا نام اس میں کہیں جگہ نہیں پاسکا جبکہ یہ شعبہ 15 سال سے پاکستان کے معروف قاری اُستاذ القراء محمد ابراہیم میرمحمدی کی زیر ادارت تجوید