کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 5
﴿يَأمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إصْرَهُمْ وَالأغْلَالَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾
”وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان یہود و نصاری کو نیکیوں کا حکم کرتا اور برائیوں سے روکتا ہے۔ طیبات (پسندیدہ چیزیں ) ان کے لئے حلال کرتا ہے اور اشیاءِ خبیثہ کو حرام ٹھہراتا ہے اور ان کی گردن سے (شدید احکام کی) طوق و زنجیر کوجو ان کے گلے میں پڑے ہوئے تھے، علیحدہ کرتا ہے اور ان پھندوں سے نکالتا ہے جن میں وہ (صدیوں سے) گرفتار تھے۔“ (الاعراف:157)
الغرض اسلام کا مقصد انسان کو مذہبی اعمال کا مکلف بنانے سے دیگر مذاہب کی طرح تکلیف و تعذیب میں مبتلاکرنا نہیں ،بلکہ اصلاحِ قلوب و تزکیہٴ نفس ہے جو انسان کی صالح تمدنی و معاشرتی زندگی کے لئے ناگزیر ہے۔ جب مذہبی عبادات کا منشا یہ ہے تو موجودہ جدید تمدن و نئی تہذیب کے علم بردار مسلمانوں پر بہت افسوس ہے کہ جواسلامی عبادات کا یہ کہہ کر مضحکہ اُڑاتے ہیں کہ یہ فضول حرکتیں اور لاحاصل قید ومشقت ہے۔
فتنہ کی انتہا
بلکہ بعض گریجویٹ نوجوان توکھلے الفاظ میں یہ کہتے ہیں کہ روزہ عرب جاہلیت کے فقروفاقہ کی ایک وحشیانہ یادگار ہے جو یا تو اس لئے قائم کی گئی تھی کہ غذا میسر نہیں آتی تھی یا من جملہ ان غلط فہمیوں کے، ایک توہم پرستی تھی جو اہل مذاہب میں ابتدا سے پھیلی ہوئی ہیں اور انہوں نے ترکِ لذائذ و تعذیب ِنفس کو وسیلہ نجات سمجھ لیا ہے اور یہ کہ موجودہ متمدن زندگی نے دن میں پانچ مرتبہ کم از کم کھانے کا حکم دیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ انسان ایک مہینہ تک کے لئے بالکل غذا ترک کردے۔
وغير ذلك من الخرافات قاتلهم الله أنى يوٴفكون نعوذ بالله من هذه الاعتقادات للزنادقة
”اللھ انہیں غارت کرے وہ کہاں بھٹکے جارہے ہیں اور للہ تعالیٰ ہمیں ایسے زندیقانہ اعتقادات سے محفوظ رکھے۔“
دراصل اس قسم کے اعتراضات دشمنانِ اسلام کی سوقیانہ افترا پردازیاں ہیں جن کو ہمارے نوجوانوں نے قبول کرکے اپنی شکست خوردہ ذہنیت کا ثبوت دیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ اس گمراہی کا سبب فرضیت ِروزہ کی تاریخ سے عدمِ واقفیت اور اس کے حکم