کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 41
پاکستان میں اہلحدیث کی اکثرو بیشتر مساجد میں بھی نماز کے بعداجتماعی دعا نہیں ہوتی۔ دعاء بعد الفرائض انفراداً، سراً اور بلارفع ِیدین ہوتی ہے۔اس سلسلے میں ایک اہلحدیث عالم جناب شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات رحمۃ اللہ علیہ گوجرانوالہ کے فتویٰ (جو ہفت روزہ ’الاسلام‘ لاہور میں 31/جنوری 1986ء کوچھپا تھا) کی فوٹو کاپی بھی ارسالِ خدمت ہے۔[1]
جہاں تک پاکستانی حنفی دیوبندی علما کا تعلق ہے؛ شیخ الہند مولانا محمودالحسن رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذ مولانا ابوالقاسم رفیق دلاوری رحمۃ اللہ علیہ اپنی مسائل نماز پر مستند کتاب ’عمادالدین‘ جو انہوں نے 2/شعبان 1374ھ کو لاہور سے شائع کرائی تھی، اس کے صفحہ 365 پرطویل بحث کے بعد فرماتے ہیں:
”الغرض نماز کے سلام کے بعد امام اور اس کے مقتدیوں کا مل کر دعاء مانگنا بدعت ِسیئہ ہے.“
ان کی اس کتاب کے صفحہ 364 اور 365 کی فوٹو کاپی بھی پیش خدمت ہے۔[2]
[1] مولانا کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں : ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نماز کے اندر اور باہر کے تمام مسائل ہم تک پہنچا دیے اور اگر سیدالانبیاء سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دُعا کرتے اور مقتدی آمین کہتے تو یہ ایک اہم مسئلہ انہوں نے ہم تک کیوں نہیں پہنچایا۔ اگر آپؐ دُعا کرتے تو ہم تک تواتر کے ساتھ بات پہنچتی حالانکہ احادیث کی اوّل سے لے کر آخر کتاب تک کا مطالعہ کرکے دیکھیں کسی کتاب میں اس کا ذکر نہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر شعبہ زندگی کے آداب حتیٰ کہ بیت الخلا میں بیٹھنے اور زندگی میں اَزواج سے تعلقات تک کے آداب ہم تک پہنچائے۔ نیز نماز فرض کے بعد انفرادی قسم کے تمام آداب بتائے ہیں ۔ اجتماعی دُعا کی تو ان تمام سے زیادہ اہمیت ہے، اگر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز کے بعد اجتماعی دُعا کی اور مقتدی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آمین کہی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ مسئلہ کیوں پوشیدہ رکھا۔ آیا صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسی دعا سے نعوذ باللہ دشمنی تھی، حاشا و کلاہرگز ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے نما زکے بعد دُعا نہیں کی … صحیح بات یہ ہے کہ فر ض نماز کے بعد مروّجہ دُعا نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ خلفاء راشدین سے اور نہ ائمہ اربعہ کے متبعین سے۔‘‘
( ہفت روزہ ’الاسلام‘ لاہور،ص۸)
[2] مولانا دلاوری رحمۃ اللہ علیہ ’’یہ بدعت کیونکر رائج ہوئی؟‘‘ کے جواب میں لکھتے ہیں :
’’حسب ِروایت ترمذی و نسائی فرض نماز کے سلام کے بعد دعا قبول ہوتی ہے۔ چونکہ سلام کے بعد امام اور مقتدی سب ہی اپنی اپنی حاجات کے لئے دست بدعا ہوجاتے تھے۔ اس انفرادی دعا نے اجتماعی دعا کا رنگ اختیار کرلیا۔ یہاں تک کہ یہ بدعت لوگوں پر ہر جگہ مسلط ومحیط ہوگئی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں : ’’میں امام کے ساتھ دعا نہیں مانگتا۔ بلکہ امام سے پہلے یا پیچھے یا کبھی ساتھ ہی اپنی الگ دُعا شروع کرتا اور امام سے پہلے یا پیچھے ختم کردیتا ہوں ۔ یہی میرا معمول ہے اگر دوسرے لوگ بھی اسی طرح امام سے علیحدہ ایسی دعائیں مانگیں تو وہ بھی بدعت کے خوفناک چنگل سے نجات پاسکتے ہیں ۔‘‘