کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 40
مفتی دارالعلوم دیوبند، انڈیا کے نام مراسلہ محمد سرور٭ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا محترم و مکرم جناب مفتی دارالعلوم دیوبندالسلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ‘ آپ کو معلوم ہے کہ خانہٴ کعبہ اور مسجد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کے افتاء سے متعلق علماء ِکبار کی ایک مستقل کمیٹی کافتویٰ ہفت روزہ ’اہلحدیث‘ لاہور میں 7 /فروری 1986ء کو چھپا تھا، اس کا اقتباس حاشیہ میں ملاحظہ کریں ۔[1]
[1] فتوىٰ كى اصل عبارت يہ ہے:”عبادات كى تمام اقسام توقيفى ہيں جس كا مطلب يہ ہے كہ ان كى ہيئات و كيفيات اور ان كا طريق كار كتاب و سنت سے ثابت ہونا چاہئے۔ سوالِ مذكورہ ميں نماز كے بعد اجتماعى دعا كى جو صورت ہے، اس كا ثبوت نبى اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كے قول و عمل اور تقرير سے نہيں ملتا … سلام پھیرنے كے بعد جو امام ہاتھ اٹها كر دُعا كرتا ہے اور مقتدى بهى ہاتھ اٹها كر اس كے پیچھے آمين كہتے جاتے ہيں ان سے مطالبہ كيا جائے كہ وہ اپنے اس عمل كا ثبوت كتاب و سنت سے پيش كريں بصورتِ ديگر اس كى كوئى حيثيت نہيں بلكہ وہ ناقابل قبول اور مردود ہے۔ “( ہفت روزہ اہلحديث: ص4، ترجمہ از حافظ عبدالستار حماد) ٭ محمد سرور صاحب سفید ریش بزرگ آدمی ہیں ، مسلکی اعتبار سے حنفی ہیں مگر متعصب نہیں بلکہ جو بات قرآن وسنت سے اَقرب ثابت ہو جائے اسی کو حق سمجھ کر اختیار کر لیتے ہیں ۔موصوف کا مذکورہ موضوع پر ایک مضمون بعنوان ’دعا بعد الفرائض میں ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ‘ ماہنامہ ’القاسم‘ (نوشہرہ) کے مارچ ۲۰۰۳ء کے شمارہ میں بھی شائع ہوا تھا۔ اس پر مولانا عبد المعبود صاحب نے تنقیدی مضمون لکھا جو القاسم ہی کے اپریل۲۰۰۳ء کے شمارہ میں شائع ہوا،پھر اس کے جواب میں سرور صاحب نے ایک اور مضمون یکم مئی ۲۰۰۳ء کو’القاسم‘ کو بھجوایا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس مضمون کی اشاعت سے معذرت کر لی کہ ’’ماہنامہ ’القاسم‘ کی اشاعتی کمیٹی اور ممبرانِ شوری نے ’دعا بعد الفرائض‘ پر بحث کو مزید آگے بڑھانے سے روک دیا ہے۔‘‘ پھر موصوف نے ماہنامہ ’القاسم‘ نوشہرہ کے ساتھ مذکورہ بالا خط وکتابت اور دارالعلوم دیوبند کو ۱۵/فروری ۲۰۰۳ء کوتحریر کردہ خط کی ایک کاپی ہمیں بھجوائی ، اس خط کو یہاں قارئین محدث کے لئے شائع کیا جارہا ہے۔ اس مسئلہ پر حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا ایک تفصیلی مضمون ماہنامہ محدث کے مئی ۲۰۰۳ء کے شمارے میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ ادارہ