کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 4
اسلام اور دیگر مذاہب کے نظریہٴ عبادت میں تفاوت قبل از ظہورِ اسلام بت پرستوں سے لے کر اہل کتاب تک لوگوں کے دلوں میں یہ عقیدہ راسخ ہوچکا تھا کہ تکلیف و تعذیب ِجسم بھی ایک قسم کی عبادت ہے اور اس سے ذاتِ الٰہی کا تقرب اور رضا حاصل ہوتی ہے۔ اس تخیل کا اثر ہے کہ چند جوگیوں نے ریاضاتِ شاقہ اور عجیب وغریب ورزشِ جسمانی کی بنیاد ڈالی جس میں سالہا سال تک کھڑے رہنا، شدید دھوپ میں قیام کرنا، گرمی کے دنوں میں آگ کے شعلوں کے دائرہ میں بیٹھنا، سالہا سال تک ایک نشست میں قائم رہنا، ایک ایک چلہ تک ترکِ اکل و شرب کرنا وغیرہ تقرب الی اللہ کے حقیقی راستے سمجھے گئے۔ آج کل جین اور بدھ مت اسی تخیل کی یادگار ہیں جو ناک، کان، منہ کو بند رکھتے ہیں کہ کسی کیڑے کو اذیت نہ ہو اور جس کے بھکشو جنگلوں اور پہاڑوں میں رہتے اور گھاس،درختوں کے پتوں اور بھیک کے ٹکڑوں پر گزر کرتے تھے۔ ایسے ہی نصرانی راہبوں نے رہبانیت کی بنیاد ڈالی جس کی رو سے تجرد کی زندگی اور آسائش و لذائذ ِجسمانی کا ترک کرنا ان کی مرغوب عبادت تھی۔ خاص خاص قسم کی تکلیف دہ ریاضوں میں مشغول رہنا کئی کئی روز تک خورد و نوش ترک کرنا ان کا انتہائی زہد و تقویٰ تھا اور اس سے پہلے یہود بھی مختلف ریاضاتِ شاقہ میں صحرا نوردی کرچکے تھے۔ قرآنِ مجید نے اپنے ظہور کے ساتھ مقصودِ عبادت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ان سب خود ساختہ طریقوں کی تردید کی اور فرمایا کہ عبادت سے مقصود انسان کی اصلاح و تربیت ہے نہ کہ تعذیب ِجسم۔ اور دین الٰہی کی بنیادیسر پر ہے نہ کہ عسر پر۔ ﴿يُرِيْدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ (البقرۃ:185) ”یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادھ رکھتا ہے اور تم کو مشقت میں ڈالنانہیں چاہتا۔“ نیز فرمایا کہ ان مبتدع طرقِ عبادت کا فطرت سے دور کا بھی لگاوٴ نہیں ۔ ﴿وَرَهْبَانِيَةَ نِابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ﴾(الحدید:27) ”یہ رہبانیت جس کو انہوں نے اختراع کیا ہے، ہم نے اس کے متعلق انہیں کوئی حکم نہیں دیا۔“ بلکہ بعثت ِرسول کا مقصد و منشا یہی بتلایا کہ دین میں ہر قسم کی سختیوں کو جن کا انہوں نے التزام کررکھا تھا بیک قلم منسوخ کردے، فرمایا: