کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 34
”اے گروہ قریش اپنی جانوں کو اللہ سے خرید لو ،میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب میں اللہ کے ہاں تیرے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے صفیہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی! میں اللہ کے ہاں تیرے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد میرے مال سے جو کچھ مانگنا چاہتی ہے مانگ لے، میں اللہ کے ہاں تجھے کفایت نہیں کروں گا۔“
اور آپ جانتے ہیں کہ ابولہب کے متعلق کیا نازل ہوا۔ حالانکہ وھ بھی ہاشمی قریشی تھا اور آپ کا سگا چچا تھا… اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں آگ کے عذاب سے پناہ عطا فرمائے۔
ناصبیوں کے متعلق اہل السنہ والجماعہ کا موقف
اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک آلِ رسول کے مرتبہ و مقام کے بیان کو مکمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ناصبیوں کے متعلق اہل السنہ کے موقف کی طرف اشارہ کردیاجائے۔
نَصَب کا لغوی معنی کسی چیز کو کھڑاکرنا اور اسے بلند کرنا ہے اور اس سے ناصبة الشر والحرب کا جملہ وجود میں آیاہے۔ قاموس میں ہے: النواصب والناصبة وأہل النصب اس سے مراد حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والے متدین لوگ ہیں ، کیونکہ انہوں نے آپ سے عداوت کھڑی کی، یعنی آپ سے دشمنی کی۔ یہ ہے ناصبیوں کے نام کا اصل۔ چنانچہ جو کوئی انسان، اہل بیت سے بغض رکھے گا وہ ناصبیوں میں سے ہے۔
قارئین کرام! علماء اسلام کا کلام حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادوں کی تعریف میں واضح اور صریح ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ نعمتوں کے باغات میں ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ (وللہ الحمد)
یہاں ناصبیوں کے متعلق اہل السنہ کا موقف اورناصبیوں سے ان کی لا تعلقی کو واضح کرنا ضروری ہے،کیونکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور مفاد پرست ٹولہ بعض من گھڑت اور خیال قصوں کی بنیاد فرقہ پرستی کو ہوا دینا چاہتا ہے۔اہل السنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بہت سی روایات بیان کی ہیں اور حدیث کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب نہ ہوں ۔میں ناصبیوں کے متعلق صرف شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش کرنے پر اکتفا کروں گا کہ جن کو شیعہ اپنا شدید دشمن سمجھتے ہیں ، کیونکہ آپ نے شیعہ کے ردّ پر سب سے بڑا سنی