کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 33
العالمين إنك حميد مجيد اور سلام ایسے ہی ہے جیسے تم جانتے ہو۔15 اور اس طرح ابوحمید ساعدی کی متفق علیہ حدیث بھی ہے اور اس کے علاوہ بہت سے دلائل ہیں جو اس پر دلالت کرتے ہیں ۔امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”اس بات پر ائمہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ درود ان کا خاص حق ہے، اس میں اُمت شامل نہیں ۔“16 اور اس سے مراد درود ِ ابراہیمی ہے۔ ثالثا ً: خمس کا حق اس طرح خمس میں بھی ان کاحق ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَإنَّ للهِ خُمُسَه وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِيْ الْقُرْبٰى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ﴾ (الانفال:61) ”اور جان لوجو چیز تم کوغنیمت میں ملے اس میں پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے اور رسول کے لئے بھی اور قریبی رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے بھی۔“ اس سلسلے میں بہت سی احادیث ہیں اور یہ حصہ آپ کے قرابت داروں کے لئے خاص ہے اور حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ان کے لئے ثابت ہے۔ یہ جمہور علماکا قول ہے اور صحیح ہے۔17 نوٹ: اہل بیت کے حقوق بہت سے ہیں لیکن ہم نے ان میں سے اہم حقوق کی طرف اشارہ کیاہے اور ان حقوق کا مستحق وہی ہے جس کا اسلام اور آپ تک نسب ثابت ہو، یہ شرط نہایت اہم ہے ، ایسے ہی اچھے عمل کا ہونا بھی ضروری ہے۔18 یہ بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نسب پر ہی انحصار و اعتماد کرنے سے ڈرایا ہے جیسا کہ مکہ مکرمہ کے مشہور واقعہ میں آپ کا فرمان منقول ہے کہ آپ نے فرمایا تھا ( يا معشر قريش! اشتروا انفسكم من الله لا أغني عنكم من الله شيئا۔ يا عباس بن عبد المطلب! لا أغنى عنك من الله شيئا۔ يا صفية عمة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! لا أغنى عنك من الله شيئا۔ يا فاطمة بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سلينى من مالي ما شئتِ لا أغنى عنكِ من الله شيئا ) (بخاری؛4771)