کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 32
حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قرابت داروں کے لئے خاص محبت کاذکر کیاجو ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت داری کی وجہ سے ان کے ساتھ ہی خاص ہے۔ اس کے متعلق اللہ کاارشاد ہے: ﴿قُلْ لَا أسْْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أجْرًا اِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِىْ الْقُرْبٰى﴾ (الشوریٰ:23) ”کہہ دیجئے میں تم سے اس پر اُجرت کا سوال نہیں کرتا مگر یہ کہ تم میرے قرابت داروں سے دوستی کرکے مجھ سے محبت کا ثبوت دو۔“ معنی کے اعتبار سے گذشتہ صحیح روایت کا مفہوم بھی یہی ہے جو اس آیت کا ہے، کیونکہ چند مفسرین نے اس کا معنی یہ بھی کیا ہے کہ مجھ سے اس بنا پر محبت کرو کہ میری تم میں قرابت داری ہے،کیونکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قریش کے تمام قبائل کی شاخوں میں قرابت داری تھی۔ مقصد یہ ہے کہ ان کی محبت اور نصرت اور توقیر، ان کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت داری کی وجہ سے ہے اور یہ اس دوستی سے علاوہ ہے جو عام مسلمانوں کے لئے ہے۔ ثانیاً : ان پر درود و سلام کا حق اس طرح ان پر درود پڑھنا بھی ان کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَه يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِىِّ يَاَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا﴾ (الاحزاب:56) ”بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجو۔“ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،ان کابیان ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس مجلس ِسعد بن عبادہ میں تشریف لائے۔ بشر بن سعد رضی اللہ عنہما نے آپ سے سوال کیاکہ اے اللہ کے پیارے رسول! اللہ نے ہمیں آپ پر درود پڑھنے کا حکم دیا ہے، تو ہم کس طرح آپ پردرود پڑھیں ،آپ خاموش ہوگئے حتیٰ کہ ہم خواہش کرنے لگے کہ کاش اس نے سوال نہ کیاہوتا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو اللهم صلّ على محمد وعلىٰ آل محمد كما صليت علىٰ ابراهيم وبارك علىٰ محمد وعلىٰ آل محمد كما باركت على إبراهيم فى