کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 31
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو یاد رکھتے ہیں ۔ کیونکہ آپ نے غدیر خم کے روز فرمایا تھا:
(أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي) 12
”میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں ،میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں ۔“
اور جب حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے آپ سے بعض قریشیوں کی بے رُخی اور سرد مہری کی شکایت کی تو آپ نے ان سے فرمایا:
(والله لا يدخل قلب إمرىٴ إيمان حتى يحبكم لله عزوجل ولقرابتى) 13
”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، کسی دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو گا جب تک وہ تم سے اللہ کی خاطر اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کریں ۔“
اور آپ نے فرمایا:
(إن الله اصطفى بنى اسماعيل واصطفى من بني اسماعيل كنانة واصطفى من كنانة قريشا واصطفى من قريش بنى هاشم واصطفانى من بني هاشم) 14
” اللہ تعالیٰ نے بنو اسماعیل کو پسند کیا اور بنو اسماعیل سے کنانہ کوپسندکیا اور کنانہ سے قریش کو پسند کیا اور قریش سے بنوہاشم کو پسند کیا اور مجھے بنو ھاشم سے پسند کیا…الخ“
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات اہل تشیع کی اس بات کا ردّ کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ ان کے ساتھ شدید عداوت رکھتے تھے،کیونکہ اُنہوں نے ابن مطہر الحلى کے رد میں منہاج السنةلکھی ہے… آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کی تفصیل درج ذیل ہے :
اوّلاً : حق محبت و نصرت
قارئین کرام! آپ پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ہر مسلمان مردو عورت سے محبت رکھنا شرعی فریضہ ہے اور آلِ رسول سے جس طرح کی محبت و نصرت کا ذکر گزر چکا ہے، وہ خاص محبت ہے جس میں کوئی اور شریک نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق لقرابتي کالفظ ارشاد فرمایا ہے جبکہ پہلی محبت جو اللہ کے لئے ہونی چاہئے وہ ایمانی اُخوت و نصرت ہے جو تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے،کیونکہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے لہٰذا یہ محبت تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے اور اس میں آلِ رسول بھی شامل ہیں ۔