کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 3
اصلاح و تربیت کا فطری طریقہ گویا قرآن نے انسان کی اصلاح و تربیت کا فطری اور سہل طریقہ یہ بتایا ہے کہ عبادتِ الٰہی میں مشغول رہے، اگر اس سے اعراض کرلے گا تو انسان کی اصلاح و تربیت مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے اور اس کا زندگی کی بے اعتدالیوں میں گرفتار ہوجانا لازمی ہے جیسے کہ فرمایا: ﴿وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِيْنٌ﴾(الزخرف:36) ”یعنی جو شخص ذکر ِرحمن سے جی چراتا ہے، ہم اس پر شیطان کو مسلط کردیتے ہیں ،پھر وہی شیطان اس کا ہم نشین اور مشیر ہوتا ہے“ اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَأنَّ هٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِه﴾ (الانعام: 153) ”یہ میرا(بتلایا ہوا) راستہ سیدھا (جو زندگی کا صحیح نصب العین اور دستور العمل ہے، اس پر چل کر انسان کامیابی کے ساتھ مقصود تک پہنچ سکتا ہے) تو اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر (جو تمہارے خود ساختہ ہیں ) مت چلو ورنہ سیدھی راہ سے بھٹک جاوٴ گے۔“ اگرچہ قرآن یہ واضح کرتا ہے کہ عبادتِ الٰہی کے علاوہ اصلاح و تربیت کے جتنے بھی خود ساختہ نظام ہیں وہ صعب الحصول ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی گمراہی کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللهِ أُوْلٰئِكَ فِيْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ﴾(الزمر:22) ”پس افسوس اور حسرت ان د لوں پر جو ذکر الٰہی کی طرف سے بالکل سخت ہوگئے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو کھلم کھلا گمراہی میں مبتلا ہیں ۔“ چونکہ عبادت سے مقصود انسان کی اصلاح و تربیت ہے، اس لئے شریعت ِحقہ نے اس کی حدود متعین کرکے توسط و اعتدال کا حکم دیا ہے اور اس میں اس درجہ غلواور افراط سے بھی شدت کے ساتھ منع فرما دیا جو انسان کو ادائیگی حقوق یا معاشرتی زندگی میں محض ایک عضو معطل بنا چھوڑے اور اس درجہ تفریط پر بھی ملامت کی جس سے عبادت کا مقصود ہی فوت ہوجائے بلکہ اس پر سخت وعید فرمائی۔