کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 25
وخندق، خیبر و حنین اور ان سے قبل مکہ وغیرہ مقامات میں فتوحات کے مواقع اکٹھے بسر کئے۔اس دوران تاریخ نے اُن کی باہمی محبت واُخوت کے وہ مظاہر دیکھے کہ دنیا آج تک اسکی مثال پیش نہیں کر سکی۔ یہ بات بھی آپ کے ذہن میں رہنی چاہئے کہ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ تھے اور وہ ان کے قائد، مربی اور معلم تھے۔جن پر رب السماوات والارض کی طرف سے قرآن نازل ہورہا تھااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ان کی زندگی کا مرجع ومحور بن گئی تھی۔ تاریخ اسلامی کے ان واقعات ومواقع کو ذرا تصور میں لائیں اور اس کے بعد دیکھیں کہ آپ صحابہ کرام کی مبارک ہستیوں کے بارے میں کیارائے قائم کرتے ہیں ۔ پہلی قسط میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی باہمی محبت کے مظاہر آپ پڑھ چکے ہیں ، جن کا ذکر اللہ نے ان الفاظ میں کیاہے : ﴿وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إذْكُنْتُمْ اَعْدَاءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا﴾ (آل عمران:103) ”اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یادکرو جب تم باہم دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا، تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔“ اوس اور خزرج کے درمیان عداوت بھڑک رہی تھی، لیکن اللہ نے اس عداوت کو مٹا دیا اور اس کے بدلے اُنہیں محبت اور اتفاق عطاکردیا۔ قارئین کرام! اگر آپ اس حقیقت کو مان لیں اور اصحابِ رسول کے ساتھ حسن ظن رکھ لیں تو اس میں آپ کا کیانقصان ہے؟ ان کا ربّ ان کے لئے شہادت دے رہا ہے اور ان پر اپنے فضل کا تذکرہ کررہا ہے کہ وھ بھائی بھائی بن گئے تھے، ان کے دل صاف و شفاف تھے ان میں اُلفت، محبت، اتفاق رچ بس گیا تھا۔ مشہور اُصول ہے کہ لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے، خصوصی سبب کانہیں ۔ اس عموم پر درج ذیل آیت دلالت کررہی ہے۔ اللھ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاِنْ يُرِيْدُوْا أنْ يَخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْبَكَ اللهُ هُوَ الَّذِىْ اَيَّدَكَ بِنَصْرِه وَبِالْمُوٴمِنِيْنَ وَألَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِىْ الاَرْضِ جَمِيْعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ وَلٰكِنَّ اللهَ اَلَّفَ بَيْنَهُمْ اِنَّه عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ﴾ (الانفال:62،63) ”اور اگر وھ تجھے دھوکہ دینے کا ارادہ کریں تو تجھے اللھ کافی ہے ،وہی اللہ جس نے اپنی نصرت اور مومنوں کے ذریعے تیری مدد فرمائی اور ان کے دلوں کو باہم جوڑ دیا اگر تو زمین میں جو کچھ