کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 20
اعتکاف کے مسائل لغوی اعتبار سے لفظِ اعتکاف باب اعْتَكَفَ يَعْتَكِفُ(افتعال) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”بند رہنا، رکے رہنا اور کسی چیز کو لازم پکڑ لینا “مستعمل ہے۔اور شرعی اعتبار سے ”ایک خاص کیفیت سے کسی شخص کا خود کو مسجد میں روک لینا“ اعتکاف ہے۔ ٭ ہر عبادت کے لیے نیت ضروری ہے اور چونکہ اعتکاف بھی عبادت ہے، لہٰذا اس کے لیے بھی نیت لازمی ہے ۔ ٭ اعتکاف سنت ہے لیکن اگر کوئی شخص اسے نذر کے ذریعے اپنے اوپر لازم کر لے تو اسے بجا لانا واجب ہوگا۔(فتح الباری ؛4/271) ٭ ماہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف زیادہ موٴکد ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مداومت کے لیے ان ایام کو اختیار کیا تھا۔(بخاری؛2026) ٭ اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رات کو اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی نذر پوری کرو۔معلوم ہوا کہ رات کو اعتکاف درست ہے اور یہ بات دلیل کی محتاج نہیں کہ رات کو روزہ نہیں ہوتا۔ ٭ اعتکاف صرف مساجدمیں ہی کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ قرآن میں اعتکاف کے لیے صرف مساجد کا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ (البقرۃ ؛ 187) ٭ اعتکاف تمام مساجد میں جائز ہے۔ البتہ بعض علما نے جامع مسجد میں افضل قرار دیا ہے۔ (نیل الاوطار ؛3/255، فتح الباری ؛4/806) ٭ خواتین بھی مساجد میں ہی اعتکاف کریں گی کیونکہ ان کے لیے اعتکاف کے متعلق کوئی الگ حکم شریعت میں موجود نہیں بلکہ ازواجِ مطہرات بھی مسجد میں ہی اعتکاف کیا کرتی تھیں ۔ ٭ بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اعتکاف بیٹھے۔ (المغنی ؛4/485) ٭ 20 رمضان المبارک کی شام کو اعتکاف کرنے والا مسجد میں پہنچ جائے اور اگلے روز صبح فجر کے بعد اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوجائے۔ جمہورعلما اور ائمہ اربعہ اسی کے قائل ہیں ۔