کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 18
٭ عمداًقے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔(ابو داود؛2380) ٭ حیض یا نفاس شروع ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔(بخاری؛1951) ٭ سعودی مجلس افتاء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ روزہ دار کے لیے عضلات اور رگ میں ٹیکے سے علاج کرانا جائز ہے لیکن روزہ دار کے لیے قوت بخش ٹیکے لگوانا جائز نہیں کیونکہ یہ کھانے پینے کے معنی میں شامل ہوتے ہیں ۔( فتاوٰى اللجنة الدائمة :10/252) ٭ روزے کی حالت میں اگر احتلام ہو جائے یا مذی وغیرہ خارج ہو جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ٭ بچے کو دودہ پلانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ۔ ٭ شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فتوی دیا ہے کہ ٹیسٹ وغیرہ کے لیے خون دینے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔ (مجموع الفتاویٰ لابن باز ؛ 15/274) روزوں کی قضا کا بیان ٭ جو شخص کسی شرعی عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑدے اس کے لیے قضا دینا ضروری ہے۔ (البقرۃ : 184) ٭ مسافر اور مریض وغیرہ کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے ۔(ایضا) ٭ حاملہ اور دودہ پلانے والی عورت بھی مسافر کی طرح ہی ہے۔ (ابو داود ؛2308) ٭ جو شخص ایسی حالت میں فوت ہوکہ اس کے ذمے روزے تھے تو اس کا ولی (یعنی وارث) اس کی طرف سے روزے رکھے۔ (بخاری ؛1952) ٭ ورثا کو چاہیے کہ میت کی طرف سے نذر کے روزے رکھیں ۔(مسلم ؛1148) ٭ ایسا بوڑھا شخص جو نہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اور نہ قضا دینے کی، اُسے چاہیے کہ وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا کر کفارہ ادا کردے۔(دار قطنی ؛2/205) ٭ رمضان کی قضا پے در پے روزوں کے ساتھ اور الگ الگ دونوں طرح درست ہے۔ (بخاری تعلیقا :کتاب الصوم، باب متی یقضی قضاء رمضان) ٭ شعبان تک رمضان کی قضا کو موٴخر کرنا جائز ہے ۔(بخاری ؛1950)