کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 13
اعضاے بدن کو چیرا پھاڑا تک جاتا ہے ۔ بعینہ رمضان بھی ہمیں پرہیز سکھانے آیا ہے ۔جیسے ہم اللھ تعالیٰ کے منع کرنے پر حلال وپاک اشیا سے دن بھر قطع تعلق و بیزار رہتے ہیں ، اسی طرح اس کے منع کردہ تمام برے اَعمال وسیئات سے اجتناب کریں ۔لیکن اگر ہم اس پرہیز کی پالیسی کو نہیں اپنائیں گے تو جنت میں داخلے کے لیے علاج کروانا پڑے گا اور تصور کیجیے، کیا وہ علاج کوئی برداشت کر پائے گا ؟کہ نرم ونازک انسان کواپنی بدپرہیزی کا انجام بھگتنے کے لیے اُس آگ میں ڈبو دیا جائے گا جو درجہ حرارت میں دنیاوی آگ سے ستر گنا زیادہ سخت ہے ۔کھانے کے لیے گندا خون،زخموں سے نکلنے والی پیپ، کانٹے دار جھاڑیاں اور پینے کو اُبلتا کھولتا ہوا پانی پیش کیا جائے گا۔علاج کے بطور سب سے ہلکی سزا یہ ہوگی کہ انسان کو آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے جن کی حرارت اس قدر شدید ہوگی کہ ان کی وجہ سے اس شخص کا دماغ یوں جوش مارے گا جیسے ہنڈیا چولہے پر جوش مارتی ہے ۔ یہ وہ علاج ہے جس کے بعد دنیا میں بدپرہیز ی کرنے والا انسان جنت میں داخل ہو سکے گا بشرطیکہ مشرک نہ ہو ۔اب خود ہی سوچئے کہ پرہیز بہتر ہے یا علاج !! روزے کی فرضیت و مشروعیت ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے‘ تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔“ (البقرۃ : 184) اگلی آیت میں ہے کہ ”جو شخص اس مہینے میں موجود ہو وہ اس کے روزے رکھے۔“ حدیث ہے کہ ” جب تم اسے ( ہلالِ رمضان کو) دیکھ لوتو روزے رکھو۔“(بخاری ؛1900) ایک اور حدیث میں ہے کہ روزہ ارکانِ اسلام میں سے ایک ہے ۔(بخاری ؛8) فضائل ِروزہ ورمضان ٭ جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں ۔قیامت کے دن اس دروازے سے جنت میں صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے ۔ان کے سوا اور کوئی اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔ (بخاری ؛1896)