کتاب: ماہنامہ شماره 283 - صفحہ 12
دروازے سدا کھلے رہتے ہیں ۔ یہ تواُن لوگوں کاحال تھا جو رمضان میں روزوں کے حکم کو کلی طور پر پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔اور جو روزہ دارہوتے ہیں ان میں سے بھی شاید ہی کچھ لوگ مراد کو پہنچتے ہوں ، وگرنہ اکثر تو دورانِ روزہ بھی ماہ رمضان کی قدروں کو پامال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔کھانے پینے سے روزہ رکھا ہے لیکن غیبت جیسی لعنت کے ذریعے اپنے مردہ بھائیوں کا خون اور گوشت کھایا جارہا ہے۔ روزہ رکھا ہے لیکن جھوٹ، فریب، گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی۔ دورانِ روزہ فلمیں ، ڈرامے اور بے ہودہ وفحش قسم کے پروگرام دیکھ کر ٹائم پاس کیا جارہا ہے ۔سگریٹ نوشی اور نسوار کے ذریعے روزہ پکا کیا جارہاہے ۔خواتین روزے کی حالت میں بے حجاب، میک اَپ کرکے،خوشبو لگا کر سڑکوں ، بازاروں اور شاپنگ سنٹروں میں غیر محرموں کے ساتھ برسرعام شعائر ِاسلام کا مذاق اُڑاتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ ایسے روزے کا کوئی فائدہ نہیں جو ہمیں پرہیز گاری کا سبق نہ دے؛ جو ہمارے اندر تقویٰ وطہارت پیدا نہ کرے؛ جو ہمیں صبر وپرہیز اور تکالیف ومصائب میں تحمل وبرداشت کا عادی نہ بنائے؛ جو ہمارے اندر نیکیوں کا جوش اور گناہوں سے بچنے کی قوت و صلاحیت پیدا نہ کرے اور جو ہماری بہیمی خواہشات کو کچلنے میں ممد ومعاون ثابت نہ ہو۔ بلکہ ایسا روزہ محض بھوک پیاس کا عذاب ہی ہے،اس کے سوا اس کا کچھ فائدہ نہیں ۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے کہ ”کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔“ فرضیت ِصیام کی اصل حکمت انسانوں کو صبر وپرہیز کی مشق کرانا ہے جیسا کہ روزوں کے حکم کے ساتھ اللھ تعالیٰ نے خود جامع مانع انداز میں فرما دیا کہ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ یعنی روزوں کی فرضیت کا مقصد یہ ہے کہ تم تقوی وپرہیز اور صبر وتحمل کے خوگر بن جاوٴکیونکہ یہی پرہیز تمہاری نجات کا باعث ہے ۔ڈاکٹر حضرات کا یہ قول کہ ”پرہیز علاج سے بہتر ہے“ہم سب نے سنا ہے اور جو پر ہیز ڈاکٹر بتلاتے ہیں ، ہماری ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اس سے احتراز کریں ۔ اور اگر کوئی پرہیز نہ کرے اور پھر بیمار ہو جائے تو اسے نہ صرف بدمزہ وکڑوی ادویات اپنے حلق سے نیچے اُتارنی پڑتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو علاج کی غرض سے اس کے