کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 242
حافظ محمد(مركز الدعوة السلفيہ ستيانہ)، عثمان غنى(اسلامك ايجوكیشنل ديپالپور)،اكرام الحق اثرى (جامعہ اہلحديث لاہور)، حافظ عبدالبارى(جامعہ سلفیہ فيصل آباد)،محمد ياسر(دار الحديث محمديہ حافظ آباد)،محمد شعيب ضياء(دار الحديث اوكاڑہ)،حافظ محمد ايوب(جامعہ محمديہ گوجرانوالہ)،امجد شہزاد(جامعہ محمديہ،اكاڑہ)حافظ عبد العزيز(كليہ دار القرآن فيصل آباد)، اور سفيان الحق رندہاوا (جامعہ سلفيہ،فيصل آباد)
مقابلے كے بعد اول ، دوم ، سوم آنے والے طلبہ كا اعلان كياگيا اور ان كے انعامات اختتامى تقريب تك ملتوى كر ديے گئے۔ اس كے بعد محاضرات كا سلسلہ شروع ہوا۔
٭ سب سے پہلے گورنمنٹ كالج سمندرى كے صدر شعبہٴ اسلاميات پروفيسر خالد ظفر اللہ نے ’اسلام ميں حريت ِفكر اور آزادىٴ اظہار‘ كے موضوع پر ليكچر ديا۔ انہوں نے اسلا م پر اس اعتراض كاشافى جواب ديا كہ اسلام ايك طرف ’لا اكراہ فى الدين‘ كى تلقين كرتاہے اور دوسرى طرف بزورِ قوت اسلام كو نافذ كرتاہے اور مرتد كو قابل گردن زنى قرار ديتا ہے۔ انہوں نے واضح كيا كہ بالجبر كسى كو اسلام ميں داخل كرنا اسلام كى روح كے خلاف ہے۔
انہوں نے ديگر مذاہب پر اسلام كى فوقیت كوثابت كرتے ہوئے يہ وضاحت كى كہ پورى اسلامى تاريخ ميں اس كى ايك مثال بهى نہيں ملتى كہ اسلامى حكومت نے كسى كو اسلام ميں داخل ہونے پر مجبور كياہو۔ ذميوں سے جزيہ وصول كرنا جبر واكراہ كى صورت نہيں بلكہ ايك معمولى سا حفاظتى ٹيكس ہے۔اسلام نہ صرف غير مسلموں كے ساتھ روادارى كى تلقين كرتا ہے بلكہ قانونى طور پر اس كى تشكيل بندى بهى كرتاہے۔مرتد كى سزا كے حوالہ سے اسلام پر اعتراض كاجواب ديتے ہوئے واضح كيا كہ مرتد كى سزا ’قتل‘ ہونا درحقيقت اسلام سے ارتداد كى سزا ہے خواہ وہ بغاوت كا مرتكب ہويانہ ہو۔
٭ بعدازاں پروفيسر ڈاكٹر عبد الروف ظفر نے طلبہ كو اعلىٰ تعليمى اسناد كے حصول اور تحقیق وتصنيف كى طرف متوجہ ہونے كى تلقين كى اور مختلف يونيورسٹيوں ميں ان كو اعلىٰ تعليم ميں داخلے كى ضرورت، اہميت اور طريق كار سے آگاہ كيا۔
٭ مدير مجلہ ’الشريعہ‘گوجرانوالہ اور شيخ الحديث جامعہ نصرة العلوم،گوجرانوالہ مولانا زاہد