کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 240
حديث رسول وحى الٰہى نہ ہونے كى بنا پر امت كے ليے اسوہ نہ رہے۔ شيخ الحديث مولانا انور شاہ كشميرى نے مولانا مفتى محمد شفيع صاحب كى زبانى آخر عمر ميں اس بات كا اعتراف كيا كہ ہم سارى زندگى حديث كو اپنى فقہ1 كے مطابق بنانے كى كوشش ميں لگے رہے۔ اس كام كے لئے مختلف اُصول وضع كئے گئے جن كا مقصد يہ تها كہ مطلب كى احاديث كو لے كر باقى كو چهوڑ ديا جائے۔مولانا كشميرى نے اس روش كو اسلام سے انحراف قرا رديا۔ مولانا صلاح الدين يوسف نے قرار دياكہ اُمت كا اتفاق اسى صورت ميں ممكن ہے جب كتاب وسنت كو كسى تحفظ كے بغير صميم قلب سے تسليم كيا جائے۔ ٭ مولانا عبدالرشيد حجازى نے ’فتنہ انكار حديث كى تاريخ‘ كے موضوع پر خطاب كيا ۔ ٭ آخر ميں صدر مجلس مولانا عبدالقادرندوى نے سامعين كے سامنے يہ واضح كيا كہ سلف كا منہج راہ اعتدال پر قائم تہا۔ انہوں نے طلباكو سلف كے اس منہج پر گامزن ہو كر عملى ميدان ميں اپنى توانائياں صرف كرنے كى تلقين كى ۔ انہوں نے كبار مشائخ اور علماپر مشتمل ايك مجلس علمى كے قيام كى تجويز پيش كى ۔ ٭ مذاكرہ ميں شركت كے لئے كئى فاضل شخصيات تشريف لائى ہوئى تهيں جن ميں مولانا حافظ عبد السلام بهٹوى، ڈاكٹر راشد رندهاوا،پروفيسر نصير الدين ہمايوں (رہنما تنظيم اساتذہ پاكستان)، ڈاكٹر خالد ظفر اللہ اور فيصل آباد ميں ايك بڑى لائبريرى كے ناظم جناب على ارشد قابل ذكر ہيں ۔ نمازِ ظہر كى وجہ سے ان حضرات كے قيمتى خيالات سے استفادہ نہ كيا جاسكا۔ ٭ ظہرانہ سے فراغت حاصل ہوتے ہى وركشاپ كے تمام طلبہ بيت الحكمت ملتان روڈ كى زيارت كو تشريف لے گئے، جہاں انہيں مختلف گروپوں ميں تقسيم كركے نادر نسخہ جات اور قديم مخطوطہ جات بالخصوص قرآن كريم كے قديم نسخوں كا معائنہ كرايا گيا۔ ٭ عصر كے نماز قريبى مسجد ميں ادا كركے تمام طلبہ كو لاہور كے تفريحى پارك گلشن اقبال ميں لے جايا گيا۔اس كے بعد اگلى منزل لاہور ميں ادارہ دارالسلام كى زيارت تهى۔ پنجاب سيكرٹريٹ كے پہلو ميں دارالسلام كے دفتر ميں طلبہ كے اعزاز ميں ايك تقريب كا انتظام كيا گيا تها۔ تقريب سے پروفيسر عبد الجبار شاكر اور حافظ صلاح الدين يوسف كے علاوہ ماہنامہ الاعتصام 1 اس سلسلہ میں عام طور پر محدثین اور فقہا کے امتیازی ’اُصولِ حدیث‘ کاذکر کیا جاتا ہے اور فقہا کی زیر کی اور ذہانت کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں حالانکہ محدثین اورفقہا دونوں طبقوں میں بلاشبہ بڑے بڑے عبقری موجود ہیں ۔فقہاے محدثین کا قوتِ استنباط واجتہاد بھی مسلم اَمر ہے،لیکن ایسے لوگ فقہا اور محدثین کا تقابل کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ بطورِ فن حدیث وخبر کا استناد ’فن حدیث‘ کا کام ہے۔فقہا کا فن تو’اجتہاد واستنباط‘ کاہے۔ جب دونوں فن مستقل ہیں اور خبر کا صحت وضعف’فن حدیث‘ کامعاملہ ہے تواس میں فقہا کو داخل کرنا یا ان کا محدثین سے مقابلہ کرنا ہی اُصولی طور پر غلط ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یا شافعی رحمۃ اللہ علیہ جیسا فقیہ جب کسی روایت کے بارے میں صحت وضعف کی بات کرے گا تووہ فن حدیث کی رو سے بطورِ محدث کرے گا نہ کہ وہ وہاں اجتہادی فن ’فقہ‘ سے کام لے رہا ہو گا۔گویا فن حدیث اور فن فقہ واجتہاد کو خلط ملط کرنے سے معاملہ تلبیس کا شکار ہو رہا ہے۔ (محدث)