کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 237
نے ’انكار ِحديث كى مختصر تاريخ‘ بيان كرتے ہوئے حديث كى حجیت كو واضح كيا اور كہا كہ قرآن اگر قانون ہے تو حديث اس كے نفاذ كا نام ہے۔ قرآن كے ساتھ اگر حديث كو لازم نہ پكڑا گيا تو قرآن بازيچہ اطفال بن جائے گا۔ حديث كى اتباع كى بیسیوں آيات قرآن ميں موجود ہيں ۔اُنہو ں نے واضح كيا كہ حديث بذاتِ خود وحى ہے، اب اس وحى كو مشكوك بنانے كى جسارت ہورہى ہے۔ حديث پرپہلا حملہ عباسيوں كے دورميں ہوا۔ اس كے توڑ كے لئے محدثين نے ايك مستقل فن كى بنياد ركهى۔ اس كى حفاظت كے لئے پانچ لاكھ افراد كے حالاتِ زندگى كا محفوظ ہونا ايسا كارنامہ ہے كہ تاريخ نے آج تك اس كى مثال پيش نہيں كى ۔ اُنہوں نے كہا كہ آج غير مسلم مسلمانوں كے خلاف متحد ہيں ۔ وہ جان چكے ہيں كہ مسلمانوں كى سياسى اور جہادى قوت كامقابلہ كرنا ان كے بس كى بات نہيں ہے تو انہوں نے سازشوں كا سہارا ليا۔ ايك طرف انہوں نے منصب ِ خلافت كو ختم كركے مسلمانوں كو چهوٹے چهوٹے ٹكڑوں ميں تقسيم كرديا، دوسرى طرف انہى كى صفوں ميں سے ايسے نام نہاد دانشور تلاش كئے جو ان ميں انتشار پيدا كريں جس كے لئے انہوں نے ’انكارِ حديث‘ كا سہارا ليا ہے۔ ہميں ان كى ان سازشوں كو سمجهنا ہوگا اور ان كا مقابلہ كرنا ہمارى ذمہ دارى ہے۔ ٭ اس كے بعدبہاولپوريونيورسٹى سيرت چيئركے ڈائريكٹرپروفيسر ڈاكٹر عبدالروٴف ظفر صاحب كو دعوت دى گئى ۔ ان كا موضوع ’مولانا امين احسن اصلاحى كا نظريہٴ حديث‘ تها۔ حديث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم نضراللہ امرءً سمع مقالتى…سے گفتگو كا آغاز كرتے ہوئے انہوں نے كہا كہ آدمى جس سے محبت كرنا ہے، ہر طرح سے اس كا اظہار كرتا ہے اور يہ اظہار علمى، عملى اور عقيدت؛ كسى بهى لحاظ سے ہوسكتا ہے۔مولانا اصلاحى كے استخفافِ حديث كے نظريہ كا پس منظر بيان كرتے ہوئے انہوں نے واضح كيا كہ برصغير ميں اتباع حديث كى بجائے فقہى جمود كا دور دوره تها ۔ فقہ حنفى اس لئے زيادہ پهيلى ہے كہ اس كو ہميشہ حكومت كى تائيد حاصل رہى ہے۔ فتاوىٰ عالمگيرى كے لكھنے ميں 500 حنفى علما شريك تهے۔انہوں نے بيان كيا كہ شاہ ولى اللہ پہلے شخص ہيں جنہوں نے برصغير ميں فقہى اورتقليدى جمود كو توڑا اور حديث كى درس و تدريس كاآغاز كيا۔ ہميں اس سلسلہ كو آگے بڑهانا ہے اور اس كى حفاظت كيلئے كوشش كرنا ہمارا فرض ہے۔