کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 235
قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْه رَاْفَةً وَّرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوْهَا﴾ كے مفہوم ميں انہوں نے علما كى دوآرا كى وضاحت كى اور كہا كہ تبين الأشياء بأضدادها كے اُصول كے تحت بدعت كى تعريف كو سمجهنے كے ليے سنت كے مفہوم كو سامنے ركهناضرورى ہے۔ اُنہوں نے بدعت كو دوقسميں پيش كيں : بدعت ِحقيقى يعنى جس كى كوئى بنياد شريعت ميں نہ ہو اوربدعت ِوضعى يعنى شريعت ميں جس كى بنياد ہونے كا تو دعوىٰ كيا جائے ليكن اس كاطريقہ كار اور ہيئت سنت ِنبوى سے ثابت نہ ہو مثلاً اذان سے پہلے درود وسلام كى وضاحت كرتے ہوئے مولاناغلام رسول سعيدى كے حوالہ سے انہوں نے بيان كيا كہ اذان سے پہلے درود وسلام ساتويں صدى كے بعد كى پيداوار ہے۔ انہوں نے تيجہ ، ساتا اور چاليسواں كو بهى بدعت ِوضعى قرار ديا۔ انہوں نے اس رجحان كو تنقيد كا نشانہ بناياكہ ہر كام كو بدعت قرار دے دياجائے۔ انہوں نے وضاحت كى كہ بدعات كے عموماً چار ماخذ ہيں : (1)جاہلى رسومات (2)قيصر وكسرىٰ كے اطوار اور طرزِ حكمرانى (3)يہود ونصارىٰ اور ہنود كى رسومات وغيرہ انہوں نے شيخ محمد بہجت مصرى كے حوالہ سے جنازه كے پيچهے اونچى آواز سے قرآن پڑهنا اور قصيدہ برده پڑهناوغيرہ كومكروہ اور بدعت قرارديا۔ ٭ اس كے بعد جامعہ اہلحديث،لاہوراورمجلہ تنظيم اہلحديث كے مدير منتظم حافظ عبد الوہاب روپڑى كو دعوتِ خطاب دى گئى۔ آپ نے سلفى تحريك كى حقيقت اور اس كى تاريخ كا اختصار كے ساتھ تذكرہ كيا اور بيان كيا كہ اس فكر كے حاملين نے كس طرح محنت اورجانفشانى سے اپنے مشن كو آگے بڑهايا۔ ايك سوال كا جواب ديتے ہوئے انہوں نے كہا كہ حافظ عبد اللہ محدث روپڑى اور مولانا ثناء اللہ امرتسرى كے درميان فكرى اختلاف تو تها ليكن وہ ايك دوسرے كى خوبيوں كے معترف بهى تهے انہوں نے اس الزام كو غلط قرار دياكہ محدث روپڑى نے مولانا ثناء اللہ امرتسرى رحمۃ اللہ علیہ كو(نعوذ باللہ)كافركہا ہے ۔ ٭ مولانا عبد الستار حمادصاحب نے ’بيمہ كى شرعى حيثيت‘ پر گفتگو كرتے ہوئے بيمہ كا مفہوم واضح كيا اور اس كى صورتيں اور اقسام بيان كيں اوربيمہ كے مجوزين كے دلائل كا تجزيہ