کتاب: محدث شماره 282 - صفحہ 234
ياد رہے كہ باغ جناح جانے سے قبل لارنس روڈ پر واقع علامہ احسان الٰہى ظہير رحمۃ اللہ علیہ كے قائم كردہ مركز اہل حديث كا بهى طلبہ نے دورہ كيا۔
چوتها دن ( 3 / اگست، بروزمنگل )
٭ ’اسلامى نصاب ونظامِ تعليم‘ كے حوالے سے ناظم وفاق المدارس السلفيہ مولانا يونس بٹ صاحب نے سير حاصل گفتگو كى۔ انہوں نے بتايا كہ نصابِ تعليم صرف كتابوں كا نام نہيں ہے اس ميں سكهانے كامنہج اور انداز بهى شامل ہے۔ اسلام نے اس بارے ميں ہمارى بهرپور رہنمائى كى ہے۔ بچے كى پہلى درسگاہ ماں كى گود ہے۔ انہوں نے كہا كہ بچہ جب بولنے لگے تو اس كو سب سے پہلے لا اله الاالله سكهانے كا حكم ہے ۔ اس كے بعد ماں بچے كو رشتوں كى پہچان كرواتى ہے اور بتلاتى ہے كہ ان كے حقوق كيا ہيں ۔ پهر معاشرتى آداب سكهانے كامرحلہ آتا ہے۔ نصابِ تعليم كى ترتيب بهى بالكل يہى ہے۔ سب سے پہلے عقائد كى تعليم كى ضرورت ہے ،اس ميں مكمل ايمانيات آجاتے ہيں ۔8، 10 سال كى عمر تك جب بچے كا عقيدہ پختہ ہوجائے گا تو پهر وه كسى بهى ميدان ميں بے خوف و خطر كود سكتاہے۔ اس كے بعد معاشرتى علوم كا مرحلہ آتا ہے۔ حقوق و فرائض، دوست دشمن كى پہچان اور زبان كى اصلاح اس مرحلے ميں شامل ہيں ۔ اس كے بعد طالب علم كے ذہنى ميلان كو سامنے ركھ كر ميدانِ عمل كا انتخاب كيا جا سكتا ہے۔اُنہوں نے نظام تعليم كے حوالے سے بدلتے ہوئے تقاضوں كا تعارف كروايا اور كہا كہ ہميں ان ضروريات كے ساتھ چلنا چاہئے۔ نئے اساليب اور تجربوں كو اپنى اَناكى بهينٹ چڑهانے كى بجائے خوش دلى سے قبول كرنا چاہئے۔ قرآن وحديث تو كبهى تبديل نہيں ہوسكتے ليكن اس كى تعليم و ترويج كے لئے جونئے نئے تجربات سامنے آرہے ہيں ، ان سے انكار بهى كوئى اچهى بات نہيں ہے۔ ہميں نصابِ تعليم، طريقہ تدريس، تربيت ِاساتذہ اور امتحانى طريقہ كار وغيرہ تمام چيزوں كاجائزہ ليتے رہنا چاہئے۔
٭ شيخ الحديث جامعہ سلفيہ،فيصل آباد مولانا عبدالعزيز علوى نے بهى سنت وبدعت كے موضو ع پر اظہارِ خيال كرتے ہوئے سنت و بدعت كامفہوم ان كے درميان فرق اور بدعت كى مروّ جہ صورتوں پر سير حاصل گفتگو كى اور دلائل سے ان كا ردّ كيا ۔ قرآن كى آيت ﴿وَجَعَلْنَا فِىْ